خطے کی بدلتی صورتحال!!!

0
86
کوثر جاوید
کوثر جاوید

افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے پہلے براہ راست مذاکرات میں امریکہ نے طالبان کو سیاسی طور پر تسلیم کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ان کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔امریکہ نے انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مالی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔اس میں وہ بین الاقوامی امداد بھی شامل ہے جو دیگر ممالک افغانستان بھیجنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ کی رضامندی کے بنا وہ ایسا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔طالبان حکام کے مطابق امریکہ نے انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے ساتھ نہ جوڑنے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ان مذاکرات میں امریکہ نے کابل میں حالیہ خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم داعش کے خلاف مشترکہ آپریشن کی پیش کش کی۔طالبان کا اس پیشکش پر کہنا تھا کہ انہیں داعش کی سرکوبی کے لئے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔طالبان کو خدشہ ہے کہ اس پیشکش کے ذریعے امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کا جواز تلاش کرنا چاہتا ہے۔افغانستان پر امریکی حملہ نائن الیون واقعات کی ذمہ دار القاعدہ کے خاتمے اور القاعدہ قیادت کو پناہ دینے والی طالبان حکومت کو ہٹانے کے لئے کیا گیا۔امریکہ کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ افغانستان کی سرزمین’دوسرے ممالک خصوصاً امریکہ اور اس کی اتحادی ریاستوں میں بدامنی اور دہشت گردی کی کارروائی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔
صرف افغان نیشنل آرمی کی تشکیل و ترتیب پر83 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ افغانستان میں طالبان کے حریف شمالی اتحاد کو اختیارات میں شراکت دار بنایا۔حامد کرزئی’اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی شکل میں ایسے حکمران مسلط کئے جو امریکی پالیسی پر عملدرآمد کراتے۔ان حکمرانوں نے خطے میں امریکہ کی سیاست کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور امریکہ کے نئے اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب امریکہ کو افغان جنگ سے جان چھڑانے کی سوجھی۔افغانستان سے انخلا کے لئے ضروری تھا کہ امریکہ کے بعد وہاں کسی نوع کا سیاسی و انتظامی بحران پیدا نہ ہو۔ان حالات میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات شروع ہوئے۔پاکستان ان مذاکرات کا سہولت کار بنا۔حتمی بات چیت دوحا میں ہوئی۔طالبان حکومت نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا جس کا مطلب طالبان اور اسامہ بن لادن کے درمیان درپردہ مضبوط تعلقات سمجھے گئے۔امریکہ اور نیٹو کے 28ممالک نے اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر افغانستان پر یلغار کی۔سب سے پہلے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا’طالبان کارکنوں کی بڑی تعداد گرفتار ہوئی۔قلعہ جنگی جیسی سینکڑوں المناک داستانیں موجود ہیں جو گرفتار طالبان پر بہیمانہ تشدد سے آگاہ کرتی ہیں۔ امریکہ نے بیس برس کے دوران افغانستان پر کھربوں ڈالر خرچ کئے۔
دونوں فریق اس امر پر متفق ہوئے کہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے۔انخلا سے پہلے اور انخلا کے دوران طالبان نے بین الاقوامی فوجی دستوں پر کسی طرح کا حملہ نہ کرکے اپنا عہد نبھایا’دوسری طرف اشرف غنی انتظامیہ نے بھارت کے ایما پر انخلا میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔طالبان نے افغان حکومت کی مسلح کارروائیوں کا جواب دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مقررہ تاریخ سے پہلے ہی طالبان نے کابل کا انتظام سنبھال لیا۔طالبان کی جانب سے افغانستان کا اقتدار سنبھالنا تعجب خیز نہیں تھا۔اشرف غنی حکومت امریکہ کی پٹھو ہونے، بدعنوانی اور عوام میں جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے غیر مقبول تھی۔
ان سب کے لئے رقم موجود نہیں جس سے طالبان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔پاکستان’روس’ چین اور اقوام متحدہ امریکہ سے اپیل کر چکے ہیں کہ افغانستان کے ضبط فنڈز واپس لوٹا دیے جائیں تاکہ تباہ حال افغانستان میں انسانی المیہ جنم نہ لے سکے۔ ضرورت اور احتیاج کی شدت سپر پاور کو موقع دیتی آئی ہے کہ وہ پسماندہ ممالک کی کمزوری کا فائدہ اٹھائے۔ طالبان اور امریکہ کے مابین حالیہ مذاکرات میں ایک بار پھر طالبان نے یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین امریکہ کے مفادات کیخلاف استعمال نہیں ہو گی۔
جدید سیاسی نظام موجود نہ تھا۔ان حالات میں ایک ہی عوامی قوت تھی جو متحرک ہوئی اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔طالبان کے قبضے کو امریکہ کی شکست کے طور پر دیکھا گیا۔اگرچہ سچ یہی ہے لیکن امریکی پریس کی تنقید اور نیٹو ممالک کے ردعمل نے امریکی حکام کو زچ کر دیا۔ طالبان اقتدار والے افغانستان کے ساڑھے نو ارب ڈالر کا زرمبادلہ ضبط کرنے کا اعلان کر دیا۔تازہ صورت حال یہ ہے کہ افغان حکومت کو سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنا ہیں’مریضوں کے لئے ادویات خریدنا ہیں’غذائی اشیا درآمد کرنا ہیں۔ایسی ہی کچھ اور یقین دہانیوں کے بدلے میںا مریکہ نے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا اعلان کیا ہے جو انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کے ضمن میں پیش آ رہی تھیں۔ سردست طالبان کے انکار نے یہ موقع ختم کر دیا ہے لیکن طالبان نے تجارتی اور معاشی معاملات کو بہتر نہ کیا تو امریکہ کے ڈومور کا سلسلہ دراز تر ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ اس سے امریکہ کی جانب دیکھنے والے ان ممالک کی الجھن دور ہو جائے گی جو مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کے خواہاں ہیں۔اس کیساتھ امریکہ نے اپنے مستقبل کے عزائم بھی ظاہر کر دیے ہیں۔امریکہ سمجھتا ہے کہ ا سے قلیل تعداد میں سہی افغانستان میں اپنی موجودگی رکھنا چاہیے۔دیگر ممالک کی طرح امریکہ طالبان حکومت کو بھی انسداد دہشت گردی آپریشن میں شامل کر کے خطے میں اپنے آپریشنوں میں سہولت کا خواہاں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here