روزہ ایسی عبادت ہے جس میں ریا کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے ریا دکھلاوے کو کہتے ہیں اوریہ ایسا گناہ ہے جس سے بڑے سے بڑا عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ دنیائے طب نے ہزاروں سال کے تجربے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بہترین صحت کا راز کم کھانے میں مضمر ہے جب کہ دینِ الہی حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے روزے کی ریاضت سمیت کم خوراکی کی اہمیت پر زور دیتا رہا ہے۔ روزے سابقہ امتوں کے لئے بھی تھے جیسا کہ سور بقرہ کی آیت نمبر183میں ارشاد ہوا!
ترجمہ :-مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو ۔ جس مہینے میں قرآن نازل ہوا اسے شہررمضان کہا جاتا ہے۔ اللہ نے سات ضمائر متکلم کے ساتھ اپنے بندوں کی دعاں کی قبولیت کا ذکر فرمایا ارشاد ہوا اے میرے حبیب جب میرے بندے تم سے میرے بارے سوال کریں تو انہیں کہو کہ میں ان سے قریب ہوں ۔ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں او رجواب دیتا ہوں ۔پس وہ مجھے پکاریں مجھ پر ایمان رکھیں شاید وہ رشید قرار پائیں ۔ احکام روزہ کے درمیا ن وعد استجابت دعا شاید اسی لئے ہے کہ اس مہینے میں دعا زیادہ مستجاب ہوتی ہے ۔ پیغمبر اکرم نے اپنے معرک الآرا خطب شعبانیہ میں ارشاد فرمایا اے لوگو! اللہ کے مہینے میں استغفار کرو ،اپنی پشتوں کو گناہوں کے وزن سے ہلکا کرو، سجدوں کو طولانی کرو اس لئے کہ خدا نمازیوں پر عذاب نہ کرے گا۔ اے لوگو! جس کا اخلاق اس مہینے میں اچھا ہوگا وہ پلِ صراط سے جلدی گزرجائے گا ۔اس کا حساب آسان ہوگا۔ جو اس مہینے کسی کو تکلیف نہ دے گا خدا اس سے بروزِ قیامت تکلیف دور رکھے گا۔ جو اس مبارک مہینے میں کسی یتیم پر رحم کرے گا خدا بر وز قیامت اس پر مہربان ہوگا۔ جواس مہینے میں فرض ادا کرے گااللہ اسے 70گنا ثواب دے گا ۔جو سنتی نمازیں پڑھے گا خدا اسے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔ اے لوگو! یہ مقدس مہینہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل ہے ۔اس کے دن دوسرے دنوں سے افضل اس کی راتیں دوسری راتوں سے افضل ہیں۔ اس ماہ ِمبارک میں روزہ دار کا سانس لینا تسبیح شمار ہوتا ہے سونا بمنزلہ عبادت ہے۔ تمہارے اعمال مقبول دعائیں مستجاب اور حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ صدق نیت سے خدا سے دعا کرو کہ روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے کی توفیق دے۔ اے لوگو! تم میں سے جو کسی مومن کا روزہ کھلوائے گا اس کو خدا ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا اور اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر مکمل افطاری نہ دے سکو تو ایک خرما(کھجور)یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرا جو مجھ پر اور میری آل پر درود بھیجے گا خدا اس کے اعمال کا ترازو قیامت کے دن بھاری کرے گا۔ جواس مہینے ایک آیت قرآنی کی تلاوت کرے گا اسے ختمِ قرآن کا ثواب ملے گا۔ اے لوگو! اس مہینے جنت کے دروازے کھلے ہیں دعا کرو یہ ہمیشہ کھلے رہیں اور جہنم کے دروازے بند ہیں دعا کرو ہمیشہ بند رہیں۔ اس مہینے میں شیطان زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے دعا کرو کہ شیطان تم پر مسلط نہ ہونے پائے ۔ہر چیز کی بہار ہوتی ہے قرآن کی بہار رمضان ہے۔حدیث میں ہے کہ چار قسم کے لوگوں کی دعا مسترد نہیں ہوتی روزہ دار ،بیمار، حاجی اور مجاہد۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تمہیں میں ایسا عمل بتاں جس سے شیطان اور تمہارا فاصلہ مشرق ومغرب کاہوجائے۔ روزہ شیطان کے چہرے کو مسخ کردتیا ہے، صدقہ کمر توڑ دیتا ہے، خدا کے لئے محبت اس شیطان کی نسل کی تباہی کا سبب ہے اور توبہ سے اس کی شہ رگ کٹ جاتی ہے۔ ہر چیز کی زکو ہوتی ہے اے لوگو روزہ بدن کی زکو ہے ۔
ایک حدیث میں روزے کوجہنم سے ڈھال بتایاگیا ہے جب کہ حدیث قدسی میں خالق کون ومکاں نے فرمایا! روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خوددیتا ہوں۔ دوسری معتبر روایات میں یہ آیا ہے کہ اس کی جزا میں خود ہوں یعنی جو روزہ رکھتا ہے میں خود اس کا ہو جاتا ہوں۔صاحبانِ ایمان سے یہ امر پوشیدہ نہ رہے کہ روزہ دار کا میزبان خدا ہوتا ہے۔
حضورِ اکرم کا ارشاد گرامی ہے اے لوگو! اس مہینے میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کو فراموش نہ کرو، قرابت داروں سے صلہ رحمی کرو ،اپنی زبانوں کو یاوہ گوئی سے روکو، اپنی آنکھوں کو نامحرموں سے نیچا رکھو، اپنے کانوں کو لغو سے دور رکھو۔آپ نے فرمایا میری امت کی عورتیں اگر چار کام کرلیں تو میں ضامنِ جنت ہوں حفظ عفت، اطاعت شوہر، اقام نماز اور روز ماہِ رمضان ۔آپ نے فرمایا اگر لوگوں کو روزے کے ثواب کا پتہ چل جائے توسال بھر کو ماہِ رمضان قرار دینے کی تمنا رکھیں .
جہنم کے دروازے پر تحریر ہے کہ میں روزہ داروں ،تہجد گزاروں اور صدقہ دینے والوں پر حرام ہوں۔ اوائل اسلام میں روزے کا طریقہ مختلف تھا ۔جب کوئی شخص رات میں سو کر اٹھتا تھا تو اس درمیانی وقفے سے لے کر اگلے روزمغرب تک کھانا پینا منع تھا۔ جس پر ایک بوڑھے صحابی رسول حضرت خوات ابن جبیر انصاری خندق کھود رہے تھے کہ بے ہوش ہوگئے آپ نے جب بے ہوشی کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ بوڑھے صحابی رات کو افطار سے پہلے سو گئے تھے ان کی اہلیہ افطاری تیار کررہی تھی جب افطاری تیار ہوئی اور وہ نیند سے بیدا ر ہوئے توانہوں نے کچھ نہ کھایا پیا چنانچہ بغیر کھائے پئے روزہ رکھا اور خندق کھودتے وقت نقاہت سے بے ہوش ہوکر گر پڑے ۔پیغمبرِ اکرم کو ان پر رحم آیا اور خدا سے استدعا کی جس پر یہ حکم نازل ہوا کہ تم مغرب سے صبح صادق تک کھا پی لیا کرو ۔
حضرت علی نے فرمایا صرف پیٹ کے روزے سے زبان کاروزہ اور صرف زبان کے روزے سے اعضاوجوارح کا روزہ بہتر ہے اس لئے کہ بہت سارے روزہ دار کھانے پینے سے پرہیز تو کرتے ہیں مگر جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی، غیبت، تہمت، حسد اوراذیت مومن وغیرہ سے اجتناب نہیں کرتے۔ آنکھ ،کان، دل و دماغ اور سوچ کا بھی روزہ ہونا چاہیے تاکہ انسان مکمل اخلاص کا نمونہ نظر آئے ۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا خدا شبِ اول ماہ رمضان میں تمام امت پر نظر رحمت کرتا ہے تاکہ ان کے گناہوں کو معاف کردے ہر مومن کے لئے دو ہزاردرجے عطا کرتا۔ دوسری تاریخ کو خدا ہر عبادت گزار کو ہر قدم کے بدلے ایک سال عبادت کا ثواب لکھتا ہے تیسری رمضان فردوس میں دار ابیض کے محل ہائے کثیر تعمیرکرتا ہے چوتھے روز خدا ہر روز دار کو 70ہزار محل کا مالک بناتا ہیپانچویں روزے کو خدا ہر روزہ دار کو جنت میں ہزار محل عطا کرتا ہے چھٹے روز خدا روزہ دار کو دارالسلام میں ایک لاکھ شہر عطا کرتا ہے ساتویں روز جنت نعیم میں چالیس ہزار، آٹھویں روز 60ہزار عابد کا ثواب ہے نویں روز ایک عالم کا درجہ اور دسویں روز ستر ہزار حاجتوں کو پورا کیا جاتا ہے گیارہویں روز کو چار حج وعمرہ کا ثواب بارویں روز کو تمام برائیوں کی اچھائیوں میں تبدیلی تیرہویں روزاہل مکہ ومدینہ کا ثواب چودہویں روز اصحاب انبیا کا درجہ اور پندرہویں روز ہر حاجت پوری ہوتی ہے اور عرش کے فرشتے روز دار کے لئے استغفار کرتے ہیں سولہویں روز کے روزہ دار کو میدان حشر میں بادل کے سائے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ سترہویں دن کے رزوے دار کے آبا واجداد کے گناہوں کو معاف کیا جاتا ہے۔ اٹھارہویں روزے کو خدا پنے ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ روزہ دار کے لئے مغفرت کی دعا کریں۔ انیسویں روز کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو روزہ دار کے ئے دعا نہ کرتا ہو۔ بیسویں روز کے روزدہ دار کو خدا کے فرشتے شیطان سے محفوظ کرتے ہیں۔ اکیسویں روزے کے بدلے روزہ دار کے لئے وسعت قبر کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ بائیسویں روزے کے بدلے موت کے عذاب سے چھٹکارا تیئیسویں روزے کو پل صراط سے گذرنے کاوعدہ چوبیسویں روز ے کا زندگی ہی میں مقام بہشت دیکھنے کا یقین اور پچیسویں روزے کے بدلے زیرعرش مقام اعلی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ چھبیسویں روزکے روزہ دار کو خدا رحمت سے دیکھتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے ستائیسویں روزے کو روزہدار ہر مومن او رمومنہ کا مددگار شمار ہوتا ہے اٹھائیسویں روز روزہ دار کو جنت الخلد میں ایک لاکھ نورانی محل عطا کئے جاتے ہیں انتیسویں دن روزہ دارکو شہرھائے بہشت عطا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے جب کہ تیسویں روزے کو ہر روزے کے بدلے ایک ہزار شہید کا ثواب 50سال کی عبادت ہرروزکے بدلے دو ہزار روزں کاثواب ہر روزے کے بدلے جہنم سے نجات کاوعدہ کیاجاتا ہے ۔
راقم الحروف آخر کلام میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے دست بستہ عرض گزار ہے کہ دوران رمضان المبارک کورونا وائرس کے خاتمے کی دعا کریں۔ جس نے دنیا بھر کی رونقیں ختم کر دی ہیں ۔ اور اللہ کے گھروں پر بھی تالے لگوا دئے ہیں۔
٭٭٭