امام حسین کے اصحاب و انصار کی قدرومنزلت

0
99
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

امام حسین علیہ السلام کے اعوان واصحاب وانصار کی وفا منفرد ، محبت لازوال اور ایثار کم نظیرنہ تھا وہ اطاعتِ اولی الامر کرتے ہوئے باطل قوتوں سے ٹکراگئے۔ انہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہ کی ، وہ اطاعتِ امام عالی مقام میں رضائے الٰہی کے متلاشی تھے۔ انہوں نے سن وسال کی حدود وقیود سے ہٹ کر قربانی دی انہیں موت کا یقین تھا وہ جینے پر مرنے کو ترجیح دیتے تھے. اصحاب الحسین ! حفاظ قرآن ، قاریان کتاب، عارفان امام وقت ، وفاداران اہل بیت اور حامیان حق تھے۔ ان کی فضیلت کیلئے اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ ان کا خون سرکار سید الشہداء کے خون کے ساتھ مٹی میں مل گیا اور وہ مٹی خاک شفاء بن گئی ، امام زین العابدین سے لیکر امام مہدی تک سارے آئمہ معصومین ذکرمظلوم کربلا کے ساتھ ساتھ ان پر سلام کرتے رہے ہیں۔ شب جمعہ کو ارواح انبیاء وآئمہ کربلا میں زیارت حسین کے ساتھ ان مخلصین دین پر سلام کرتی ہیں۔
شب جمعہ ام المؤمنین خدیجہ الکبری ، اور سیدہ نساء العالمین سیدہ فاطمة الزہراء شہدائے کربلا کی زیارت کرتی ہیں۔فرشتے قطار اندر قطار ان کی قبروں کی زیارت کوجاتے ہیں ، اصحاب مظلوم کربلا میں کچھ تو اصحاب رسولۖ تھے جن کا بچپن یا جوانی خاتم الانبیاء ۖکی سرپرستی میں گزری تھی سایہ رسالتۖ وتربیت نبوت ۖ کے اثر سے انہوں نے تن من دھن قربان کردیا تھا انہوں نے امام عالی مقام کی نصرت کر کے عشق مصطفیۖ کا بین ثبوت فراہم کیا ، انہوں نے مکروفریب پر شرافت ودیانت کو ترجیح دی ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دی حرص وطمع پر خاتمہ علی الخیر کو ترجیح دی ، انہوں نے دنیا کی رنگینیوں اور زوال پذیر نعمتوں پر آخرت کے عظیم درجات اور اخروی انعامات کو مقدم سمجھا ان کے سامنے ہر آپشن تھا مگر انہوںنے نمائندئہ حق کا ساتھ دیا وہ اہل بیت عصمت وطہارت کے افراد سے پہلے شہید ہونے کو ترجیح دیتے رہے ، مدینہ سے لے کر کربلا تک راستے بھر میں یہ انصار الاسلام محافظ اسلام کے کاروان حریت میں شامل ہوتے رہے۔
حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی کوفہ کے اسدی قبیلہ کے سردار تھے انہیں امام حسین نے خط لکھ کر بلایا تھا جب قاصد حسین ! حبیب کے گھر پہنچا تو حبیب نے اس سے کہا اے قاصد مجھے پہلے وہ ہاتھ چومنے دے جو چند روز قبل فرزند زہراء کے ہاتھوں میں تھے اور وہ آنکھیں چومنے دے جنہوں نے میرے امام وقت کو دیکھا ہے ، وہ فوراً راہی کربلا ہوئے۔ حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی بھی انہی کے قوم وقبیلہ کے تھے جنہوں نے شب عاشور خضاب لگا یا تو حبیب نے پوچھا آپ آج کی شب خضاب لگا رہے ہیں تو فرمانے لگے کہ ہم میں اور جنت میں صرف ایک رات کا فاصلہ رہ گیا ہے۔
انہی نے حبیب کو وقت آخر وصیت کی تھی کہ اس مظلوم غریب زہراء کا خیال رکھنا ، حبیب نے بھی وفا کی انتہا کی تھی یہ وہ اصحاب رسول ۖ تھے جو سفید ریش کمر خمیدہ اور قاریان کتاب الٰہی تھے ، انہوں نے اپنی کمروں کو لڑتے وقت پٹکوں سے باندھ کر سیدھا کیا اہل بیت کے حسد میں مبتلا یزیدی فوج اشقیاء کو ایسے اصحاب رسول ت کو بے دردی سے قتل کرتے ہوئے بھی حیا نہ آئی جن کی بھنویں لٹک چکی تھیں۔ زہیر ابن قین بھی بوڑھے صحابی تھے۔ انہوں نے رجز میں فوج اشقیاء کے دل خنجروں سے نکال باہر کئے وہ لڑتے ہوئے فرماتے جاتے تھے میں زہیر ہوں ابن قین ہوں میں صاحب مذہب حسین ہوں۔ ایسے بزرگ اصحاب کا مذہب حسین پر ہونا بتاتا ہے کہ مذہب حسین عین مذہب رسول ۖ تھا جب بجلی نے رجز پڑھا کہ میں جملی ہوں بجلی ہوں میں صاحب دین علی ہوں تو اشقیاء کے کلیجے دہل گئے۔
کربلا میں اصحاب علی واصحاب حسن بھی منصب شہادت پر فائز ہوئے تابعین اصحاب رسولۖ بھی صاحبِ ذبح عظیم پر قربان ہوگئے۔ شب عاشور میں جب امام عالی مقام نے قلادئہ بیعت اپنے اعوان کی گردنوں سے ہٹا دیا تو بھی کوئی آپ کو میدان میں چھوڑ کر نہ گیا اصحاب سید الشہدائ یہ کہتے تھے کہ فرزند رسولۖ ہم فردائے قیامت آپ کے جد ۖ کے سامنے شرمسار نہیں ہونا چاہتے نیز فرماتے تھے کہ اگر ہمیں ہزار بار قتل کر کے جدید زندگی دی جائے تو بھی آپ کی ذات پر فدا ہوتے رہیں گے۔ایک سیاہ فام غلام جون کو جب سرکار سید الشہدائ نے بروز عاشورہ آزاد کرنا چاہا تو غلام نے عرض کیا اے فرزند رسولۖ آپ اپنے سرخ ہاشمی خون کے ساتھ میرے سیاہ افریقی خون کو نہیں ملنے دینا چاہتے تو آپ نے فرمایا بار الٰہا جون کے چہرے کو سفید کردے اور اسے بہترین خوشبو عطا کر بروز قیامت جون کی خوبصورتی اور خوشبو پر اہل محشر غبطہ ( رشک) کریں گے۔
سعید بن عبداللہ ایک ناصر فرزند رسول ۖ شب عاشور کے پچھلے حصے میں لشکر اسلام سے ملحق ہوئے اور بروز عاشورہ جوانمردی دکھا کر راہی بہشت ہوئے۔ حرابن یزید ریاحی ایک ہزار دستہ لیکر امام حسین کو قید کر کے کوفہ لانے پر مامور تھے مگر لجام فرس میں ہاتھ ڈالتے ہی ہل گئے الغرض عاشور کی شب انہوں نے توبہ کرنے کا فیصلہ کیا ان کے کانوں میں کئی دن سے ایک بزرگوار کی آواز آتی تھی کہ حر تم جنت سے دور ہوتے جارہے ہو ، چند بار جناب حر نے اس سفید ریش بزرگوار کی زیارت بھی کی جوبعد میں انہیں پتہ چلا کہ خضر پیغمبر تھے حر اپنے بھائی اور بیٹے کے ہمراہ امام حسین کے لشکر میں شامل ہوئے اور جوہر دکھا کر بروز عاشورہ راہی جنت الفردوس ہوئے امام حسین نے اپنی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا رومال حر کے فرق ( سر پر) باندھا تھا جو آج تک قبر میں حر کے ساتھ موجود ہے۔ شاہ اسماعیل صفوی شاہِ ایران نے شاہ عراق کی اجازت سے ایک مغالطے میں حر کا تعویذ قبر کھولا تھا اور اس رومال فاطمہ کو سرحر پر پایا تھا یہی کربلا کی حقانیت کی بین دلیل ہے جن کے بدن آج تک صحیح وسالم ہیں حر دعائے زاہرائ کا نتیجہ تھے۔
ان کانام بھی امام حسین نے رکھا تھا امام عالی مقام کے انصار میں وہب کلبی کا نام بھی سرفہرست ہے جو عیسائی تھے اور امام عالی مرتبت کے استغاثہ آخرپر لبیک کہتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور جان فشانی سے فرزند رسول ۖ پر قربان ہوگئے وہب کلبی کی مادر گرامی اور زوجہ نے بھی جہاد میں حصہ لیا اور شہید ہوئیں جب وہب کلبی کا سر ان کی ماں کی طرف پھینکا گیا تو مادر وہب جو تازہ مشرف بہ اسلام ہوئی تھیں اس نے سرو اپس پھینکا اور کہا یہ حسین پر صدقہ ہے ہم صدقہ واپس نہیں لیتے۔ وہب کی ماں نے مریم کو اور وہب نے جناب عیسیٰ کو خواب میں دیکھا تھا جس میں انہیں نصرت حسین کی تلقین کی گئی تھی ، پچاس انصار الحسین پہلے حملے کے وقت دفاع خیام حسین کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔۔۔جاری ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here