ریکوڈک منصوبے کی سپریم کورٹ سے توثیق!!!

0
90

سپریم کورٹ نے ریکوڈک مشترکہ منصوبے کے متعلق نئے معاہدے کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے معاہدے کو قانونی قرار دیدیا ہے ۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس جمال کان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے اپنی رائے دینے کا محفوظ فیصلہ سنایا ۔ معزز عدالت عظمی نے 13 صفحات پر مشتمل بینچ کی اکثریتی رائے سناتے ہوئے کہا ہے کہنئے ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں اور ان کی یہ رائے سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کے خلاف نہیں ہے۔ ریکوڈک بلوچستان میں پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی میں واقع ہے، جہاں پر سونے اور کاپر کے ذخائر کا تعین کرنے کے لیے ٹی تھیان اور انٹوفوگسٹا، بیرک گولڈ کارپوریشن نے مل کر 1993 میں کام شروع کیا تھا۔ تاہم 2013 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ منصوبہ ملکی قوانین سے متصادم قرار دے کر منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف ٹی تھیان نے عالمی عدالت سے رجوع کیا جہاں کئی برس کی سماعت کے بعد پاکستان پر بھاری ہر جانہ عائد کیا گیا۔اس ہر جانے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے عدالت سے باہر معاملات طے کئے اور نیا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔اس معاہدے کی شفافیت اور قانونی پہلو تسلی بخش ہونے کے لئے صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے معاہدے پر رائے طلب کرنے کے لئے ریفرنس دائر کیا ۔سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسی ریفرنس پر رائے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس میں دو سوالات پوچھے گئے تھے۔ معدنی وسائل کی ترقی کے لیے سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت قانون بنا چکی ہے۔ آئین پاکستان خلاف قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا، صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے متعدد امور کی تسلی بخش پڑتال کیکہ بلوچستان اسمبلی کو بھی معاہدے سے متعلق بریفنگ دی گئی، ریکوڈک معاہدہ ماحولیاتی حوالے سے درست ہے۔ ریکوڈک معاہدے کے مطابق زیادہ تر لیبر پاکستان کی ہوگی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بیرک کمپنی نے یقین دلایا ہے کہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عمل ہوگا۔ مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا، اس پراجیکٹ سے سماجی منصوبوں پر سرمایہ کاری اور سکل ڈویلپمنٹ کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔عدالت عظمی کا مزید کہنا تھا کہ ریکوڈک معاہدہ فرد واحد کے لیے نہیں پاکستان کے لیے ہے۔ بیس مارچ دوہزار بائیس کو اس وقت کے وزیِر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا گیا کہ کینیڈین کمپنی نے 11 ارب ڈالر کے جرمانے کی تلافی کے ساتھ ساتھ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سرمایہ کاری سے بلوچستان میں ملازمتوں کے آٹھ ہزار مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کو بے پناہ فوائد ملیں گے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے سے انکم فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیکسوں کی مد میں بے پناہ ریونیو حاصل ہو گا۔ معاہدے کے مطابق اس منصوبے میں کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کا حصہ 50 فیصد ہو گا جبکہ بلوچستان کی حکومت کو اس منصوبے کا 25 فیصد ملے گا اور 25 فیصد وفاق کے پاس جائے گا۔ جبکہ بیرک گولڈ کمپنی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ اس منصوبے کا 50 فیصد حصہ بیرک گولڈ اور 50 فیصد پاکستانی حکومت کے پاس ہو گا، جس میں 25 فیصد حکومت بلوچستان اور 25 فیصد وفاق کو ملے گا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے معاہدے کی قانونی توثیق کے بعد برسوں سے رکے منصوبے پر کام شروع ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے ۔یہ آغاز اس لحاظ سے مفید ثابت ہو گا کہ پاکستان معاشی و مالیاتی مشکلات سے دوچار ہے ۔نئے شعبوں میں عالمی سرامیہ کاری دیگر سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے سکتی ہے۔دو ہزار تیرہ میں کام رکنے کے بعد سابق حکومتوں نے ٹی تھیان کاپر کمپنی میں دونوں شیئر ہولڈرز سے مذاکرات کیے تھے جن میں سے کینیڈا کے بیرک گولڈ نامی کمپنی نے منصوبے پر دوبارہ کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی ۔حکومتِ بلوچستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے سے بلوچستان کو مجموعی طور پر 33 فیصد مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ محکمہ معدنیات حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سات سال کے دوران عالمی فورمز پر مقدمہ بازی پر مجموعی طور پانچ ارب، 33 کروڑ 80 لاکھ آٹھ ہزار دو سو دو روپے کے اخراجات ہو چکے ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن ٹیکنالوجی میں پسماندگی اور متعلقہ امور میں مہارت کی کمی اکثر معاہدوں کو ملکی مفاد کے خلاف ترتیب دینے کا باعث رہی ہے۔ ریکوڈک کے ساتھ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے اسی لئے نیا معاہدے ہونے کے بعد صدر مملکت نے تمام پہلو سے ریاستی و عوامی مفادات کو یقینی بنانا ضروری خیال کیا ۔امید ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے کے بعد ریکوڈک منصوبے پر بلا تاخیر کام شروع ہو جائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here