پچھلے دنوں تحریک طالبان پاکستان جو افغان طالبان کی ذیلی تنظیم کا بھتہ خوری اور نقشہ بختوں کا حصہ بنا ہوا ہے کہ طالبان عمران خان پختونخواہ کی حکومت سے بھتہ خوری کی شکل میں اربوں کی فنڈنگ وصول کر رہے ہیں تاکہ آئندہ آنے والے وقتوں میں پاکستان کے خلاف جدید ہتھیاروں سے جنگ وجدل برپا کرپائیں یاد رکھیں یہ وہ طالبان میں جن کی عمران خان ہمیشہ حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔ جن کا مطالبہ ہے کہ طالبان کے ساتھ دفاع کی بجائے مذاکرات کیئے جائیں جس پر مسلسل عمل درآمد ہو رہا ہے چونکہ طالبان اپنے تازہ نقشے کے مطابق پورا پختونخواہ پنجاب اور بلوچستان کے بعض علاقے افغانستان کو واپس دلوانا چاہتے ہیں جن کا نظریہ لشکریت اور عسکریت ہے کہ یہ علاقے ماضی قدیم میں افغانستان میں جن کو دو سو سال پہلے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا اگر طالبان کے اسی مطالبہ کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر زمانے قدیم میں گپتا خاندان کے اشوک الظم کے دور سلطنت میں افغانستان ہندوستان کا حصہ رہا ہے یا پھر ہندوستان پر حملہ آور غزنویوں، غوریوں، سوریوں مغلوں، لودھیوں، ابدالیوں نادیوں اور دوسرے حکمرانوں کے دور میں افغانستان ہندوستان کا حصہ رہا ہے۔ جو زمانے قدیم میں بدمت کا گھر تھا تو کیا آج ہندوستان افغانستان پر اپنا حق جتوا سکتا ہے۔ یا پھر ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش، برما پر قبضہ کر سکتا ہے یا پھر دنیا بھر میں ریاستوں کے نقشے تبدیل ہوئے ہیں وہ واپس ایک عرب ایک یورپ ایک برصغیر ایک ایفریقہ ایک جنوبی امریکہ اور نارتھ امریکہ بن سکتا ہے۔ جو ناممکن ہے مگر مان لیا جائے پختونوں ایک زبان ہے اس لیے پختون خواہ اٹک، چکوال، میانوالی، بلوچستان کے پشتوں علاقوں پر قبضہ کیا جائے تو پھر افغانستان میں اپنی کوئی ایک زبان نہیں ہے۔ یہاں پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ لوگ آباد میں جن کی اپنی اپنی زبانیں ہیں جو سب کے سب فارسی رابطہ کی زبان بولتے ہیں اس لیے آج طالبان کے نقشے کے مطابق پاکستان کے علاقوں پر حق جتوانے سے پوری دنیا کا نقشہ بدل جائے گا رہا مسئلہ ڈیو ریڈ لائن کا مظاہرہ30انگریزوں کے ساتھ طے پایا تھا۔ جوآج اس خطے سے جاچکے ہیں جو خود غاصب اور قابض تھے جن کا کوئی بھی فائدہ قابل عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی طالبان کے نقشے کے مطابق عمل نہیں ہوسکتا ہے جس سے صدیوں سے آباد پنجاب اور سندھ اور ہندوستان سے پٹھانوں پختونوں اور پشتونوں کو علاقے چھوڑنا پڑیں گے جو ماضی میں مختلف ادوار میں حملہ آوروں کے ذریعے پنجاب اور سندھ پر قابض ہوئے تھے جو بڑی بڑی جاگیروں اور جائیدادوں کے مالکان ملک یا پھر آج کے دور میں پختون کاروباری لاہور، کراچی، پنڈی، اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں کاروبار کر رہے ہیں۔ تاہم طالبان کو پختون خواہ کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے جو بھتہ کے نام پر کروڑوں روپے بطور فنڈنگ کر رہے ہیں تاکہ عمران خان اپنے پاکستان کیخلاف فتنہ کو زندہ رکھے جو مسلسل طالبان کی حمایت کر رہے ہیں جن کا نظریہ شیطانیت ہے کہ پاکستان کو تین اور پاک فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے جس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں کہ آج پاک فوج تقسیم ہوچکی ہے۔ جس پر قابو پانے کے لئے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی شان ہے لیکن اگر فوج پنجابیوں اور پختونوں میں بٹ گئی جس کا دوبارہ متحد ہونا ناممکن ہوگا۔بروہ فتنہ ہے جس کی عمران خان عرصہ دراز سے پرورش کر رہا ہے یہی وجوہات ہیں کہ عمران خان جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف اور خود کو دس سال تک حکمران بنانے کے لئے بضد تھا جو فی الحال ناکام ہوا ہے لیکن آئندہ وقتوں میں کیا ہوگا جو بہت جلد رنگ لائے گا بہرحال پاکستان کے اردگرد، اندر باہر خطرات لاحق میں جس میں طالبان کا پختونخواہ کے وزیروں سے بھتہ خوری یا فنڈنگ جدید ہتھیاروں سے لیس ہونا ہے ایسے جنگ جوئوں سے مذاکرات کرنا پاکستان کو دہشت گردوں کے حوالے کرنا شامل ہے جس سے ریاست پاکستان بچ نہیں پائے گی۔ فتنہ بازی کوروکا نہ گیا۔
٭٭٭٭