بے لگام فسطائیت!!!

0
71
شبیر گُل

کائنات کے تخلیق کار، انسانوں، جنوں، درندوں، پرندوں اور تمام مخلوقات کے پالنہار ،اللہ رب العزت نے فرمایا کہ حق اور سچائی کا ساتھ دو، اپنی امانتیں حقدار کے سپرد کرو۔ سردار کائنات، حبیب کبریا،جناب رسول اقدس صلی آللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھنے پر فرمایا کہ جب امور مملکت نااہل لوگوں کے سپرد کی جانیں لگیں ،تو قیامت کا انتظار کریں۔ اللہ بارک حکمرانوں کو خدمت خلق کے لئے مامور فرماتے ہیں لیکن ہمارے ہاں،ظلم ،ناانصافی،جبر اور مہنگائی نے ان بے رحم درندوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ملک چلانے اور عوام کو ریلیف کا کوئی میکنزم نہیں۔ دنیا میںہماری پٹائی اس لئے ہو رہی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ آخرت میںہماری چھترول اس لئے ہوگی کہ ہم مسلمان تھے ہی نہیں۔ بحیثیت قوم منافقت، جھوٹ،ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، فراڈ، دھوکہ دہی،ایمانت میں خیانت، ظالموں کو سپورٹ ۔چوروں کے ساتھی تو ہم ہیں ہی۔حسین سے محبت اور یزید کے ساتھی ۔ ہمارا یہ وطیرہ ہے۔ کانٹوں کی آبیاری ، پھولوں کی امید۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ادارے گونگے، بہرے،اور اندھے ہیں۔ بے حس، بے حیااوربے شرم ہیں۔ بے عقل اور بے شعور ہیں۔ ملک میں تباہی کی ذمہ دار فوجی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ ہے۔ عوام پر نئے ٹیکس لگ گئے، لوگ رُل گئے، غریب رسوا، چوریاں، ڈاکے ،چھیناجھپٹی ۔ پولیس بے لگام، ادارے برباد ۔ حکمرانوں کے اللے تللے۔ پروٹوکول، بے جا دورے اور بے مقصد دورے۔ معیشت تباہ ،ٹیکسوں کی بھرمار، حافظ جی اور اسٹیبلشمنٹ کا تمام بیغیرتیوں پر ہیرا منڈی کی نائیکہ کا کردار۔ فوجی اشرافیہ کا پرانا فارمولہ ایکبار پھر دہرایا جائے گا۔کبھی ایک فریق کو باندھ کر دوسرے کو جتوایا جاتا ہے اور کبھی میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ فوجی اسٹبلنٹ کبھی نواز شریف کو ہٹاتی ہے اور کبھی شہید بینظیر کو اور کبھی عمران خان کو ۔ اور پھر کفارا ادا کرتی ہے۔ عمران کی ضد ،اسٹبلشمنٹ کی ہٹ دھرمی ، پی ڈی ایم سفاکیت نے سیاسی حالات کو تباہ وبرباد کردیا۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن سے ظاہر ہوا ہے کہ الیکشن فئیر اینڈ فری نہئں ہونگے۔ لیول پلینگ فیلڈ ن لیگ کو مہیا کی جارہی ہے۔ جس کا اظہار ن لیگی قیادت گزشتہ ایک سال سے کر رہی ہے۔ :اب تو بلاول کہہ رہا ہے کہ اگر لیول پلینگ فیلڈ ہو تو جیالا وزیراعظم ہوگا۔
قارئین !۔ پڑھے لکھے لوگوں میں کچھ غیرت اور حیا تو ضرور ہوتی ہے ، ایک بے شرم اور بے وقار جرنیل ہیں جو اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آتے جنہوں نے فوج کا احترام اور عوام سے رشتہ کاٹ دیا ہے۔ ایف اے اور بی اے پاس ڈفر جرنیل ، جن کے دماغ کے پرزے اکثر کم ہوتے ہیں ، وہ زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے کو بھول کو (زنخے )ہجڑے کو وزیراعظم بنوانا چاہتے ہیں۔ جو خانہ بد وشوں کیطرح گزشہ چودہ ماہ سے امریکہ جھونپڑی لگائے بیٹھا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے۔ کشمیر یوں پر بربرئیت ہورہی ہے۔ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ ناشتہ دوبئی، لنچ انگلینڈ اور ڈنر امریکہ کرتا ہے۔ اسے بھارت،کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی پامالی اور انسانی حقوق پر بات کی فرصت نہیں۔ اتنے تو سال میں دن نہیں ۔جتنے بلاول کو اب تک بیرونی دورے پڑ چکے ہیں۔ ایجنسیز پہلے اپنے من پسند مہرے لاتی ہیں، پھر اسی پولیٹکل گورنمنٹ کو کمزور کرتی ہیں۔ یہ کھیل نواز شریف ، بینظیر اور عمران خان کے ساتھ کھیلا گیا۔ جس نے جمہوریت کو کبھی پٹری پرچڑھنے نہیں دیا۔ عمران خان نے کونسا بڑا جرم کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا سامنا کرینگے۔جس طرح ہر چار سال بعد اسٹبلشمنٹ آنکھوں کے تارے کو آنکھوں کے ککرے سمجھتی ہے۔ اتنی جلدی تو ساس بھی بہو کے خلاف نہیں ہوتی اور ناہی سوکن ۔اگر جرنیل یا فوجی اشرافیہ اپنی عزت، وقار اور مقام چاہتی ہے تو انہیں اپنے رویوں میں تبدیلی لاناہوگی۔ ان جانوروں کو خطرہ کا چیز کا ہے ، ملک یہی موجود ہے۔ سیاسی لوگ بھی یہی ہیں۔ جرنیل ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ کوئی امریکہ، کوئء آسڑیلیا،کوئی دوبئی، کوئی ہالینڈ اور کوئی سعودی عرب۔ سوائے شریف خاندان کے سبھی ملک میں موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہائیکورٹ نے دس لاکھ ایکٹر اراضی کا فیصلہ فوج کے خلاف دیا ۔جس کی بہرحال قیمت عدلیہ کو ادا کرنا ہوگی ۔ پی ٹی آئی کو متعون کرنے والی پی ڈی ایم کو یاد رہنا چاہئے کہ اگلا نشانہ یہ بھی ہوسکتے ہیں۔ عدلیہ کو گالیاں تو پڑ رہی ہیں۔ جرنیل بھی پی ڈی ایم کی گالیوں کے لئے تیار رہیں۔ حکمرانوں اور جرنیلوں کا عوام اور ملک سے ہمیشہ ڈبل سٹینڈرڈ رہا ہے۔ فوجی کورٹس کی حمایت کرنے والے سیاسی رہنما، ماضی میں فوجی کورٹس پر لعنت بھج چکے ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی،چارٹر آف Hypocrisy ثابت ہوئی۔ جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک وقت عمران خان بہت اچھے لگتے تہے۔ بعد اذاں تختہ الٹنے میں باجوہ نے کردار ادا کیا۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے تھے انہیں جمہوریت پسند کہتے تھے بعد میں میر جعفر میر صادق ٹھہرے ۔ عمران خان بحثیت وزیراعظم کیسے تعریفیں کرتے تھے۔ فضل الرحمن کی فورس جی ایچ کیو کے گیٹ پلانگنے کی بات کرتی تھی۔خاکی وردی میں دھرنا مارچ کیا۔ کسی نے نہیں پوچھا۔ ماڈل ٹان سانخہ کی انکوائری کا کوئی پتہ نہیں۔ اب عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی پکڑ دھکڑ، چادر اور چار دیواری کی پامالی پر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سپریم کورٹ کی رولنگ ردی کی ٹوکری میں۔جب ججز اور عدالتیں کمزور ہوں ،تو اداروں کی بے توقیری، انصاف کی پامالی، حکمرانوں کی بے لگامی اور پولیس کی درندگی ، اور آمریت کا وائرس خارج از امکان نہیں۔
نوے ہزار سرکاری گاڑیاں ، دو سو بیس ارب کس مفت تیل، ملک ڈیفالٹ نہ کرے تو کیا کرے۔ دو سو ارب کے بجٹ میں ٹیکس دو سو سترہ ارب کے بجٹ کے فورا بعد نئے ٹیکس،مہنگائی نے نچلے طبقے اور مڈل کلاس کا کچومر نکال دیا ہے۔ اللہ بارک ہم سے ناراض ہیں۔ عوام ہاتھ اٹھا کر موجودہ حکمرانوں کے خلاف بددعائیں کر رہے ہیں۔ لیکن انکی نا دعا قبول ہو رہی ہے اور نہ ہی بد دعا ۔چونکہ ہم ان درندوں کو اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں ظلم سہتے ہیں، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔ جس کی سزا بہر حال بھگتنا ہمارا مقدر ہے۔ کھرب پتی حکمران خطے کے حالات سے بے خبر ہیں۔ موجودہ حالات میں ہماری خارجہ پالیسی صفر بٹہ صفر ہے ،اوورسیز کو ہم نے ناراض کر لیا ہے۔ طبقاتی تقسیم اور معاشی بربرئیت سے تنگ لوگ اپنے بچوں کو بھوکا مرتا نہئں دیکھ سکتے۔عام آدمی کا غصہ سے حالات خانہ جنگی کی طرف جاسکتے ہیں۔ اجرتی قاتلوں کو اقتدار میں لاکر جرنیلوں نے قوم پر ظلم کیا ہے۔۔ داخلہ پالیسی عورتوں کو ننگا کرکے ویڈیوز بنانا۔ مخالفین کے گھر اور پراپرٹیز کو ڈیمیج کرنا۔ بزنس تباہ کرناہو تو ایسے معاشروں میں نفرت بڑھتی ہے۔ جس کا شاخسانہ ہم مشرقی پاکستان میں بھگت چکے ہیں اور اب کراچی،بلوچستان ،سرحدی علاقوں میں بھگتے آرہے ہیں اور اب پنجاب میں وہی کھیل شروع کردیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ تنخواہیں اور مراعات ہم سے لیتے ہیں مگر غیر وں پے رول پر ہیں۔ جو دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
منی لانڈرنگ زوروں پر ہے۔ معیشت کلیپس ہوچکی ہے۔ تجارتی حجم حد درجہ کم ہوچکا ہے۔ امپورٹ تقریبا بند ہے۔ ایکسپورٹ تباہ و برباد ہوگئی ہے۔ خارجہ پالیسی کا کوئی رخ نہیں ،ہم کنفیوزن کا شکار ہیں۔ انڈیا کے وزیراعظم امریکی دورہ پر ہیں۔ دونوں ایوانوں سے خطاب کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ دشمنی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے آیا ۔ انڈیا کو چین کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا ہے۔ ستر کانگرس مینوں اور سینٹرز نے جوبائیڈن پر انسانی حقوق کی بات ہر زور دیا ہے۔ امریکہ گرینڈ الائنس بنا رہا ہے، ہم کنفیوثرن کا شکار ہیں،کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے۔ ہم زمینی حقائق سے دور دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ منافقت ہماری رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا پڑا ہے۔ سابق امریکی صدر باراک ابامہ کا کہنا ہے کہ کہ اگر انڈیا نے اپنی پالیسیز تبدیل نہ کہیں تو عنقریب انڈیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔ ایشین اسٹریٹیجی ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ انڈیا ناقابل اعتبار ملک بے۔ جب ضرورت پڑی تو چائنا کے خلاف امریکہ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔ امریکہ میں سرینا صدیقی کو مودی سے سوال کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھارت کے فاشسٹ نظریات اور امریکہ کے انسانی حقوق پر دوغلے رویہ کی عکاس ہے۔ پرو مودی رجیم پاکستان میں بھی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ ہمارے آزمودہ دوست چین نے پاکستان میں بھاری انوسٹمنٹ ہے۔ سی پیک میں پچاسی بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ ہے۔ چین یو این او میں ہر مخاذ پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ جی ایٹ میں ہمارا حمایتی ہے۔ کشمیر پالیسی پر ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمیشہ معاشی بیل آوٹ کرتا ہے۔ ابھی پانچ بلین کا بیل آوٹ پیکج دیا ہے۔ لیکن ہمارا کردار دوغلہ اور منافقانہ ہے۔ ہمیں ملک کے وفادار لوگوں کو آگے لانا چاہئے۔ انگوٹھا چھاپ بزنس ٹائیکون ملک ریاض نامور صحافیوں کو پیسوں کے بل بوتے پر خریدتے ہیں۔ اور یہ صحافی پیسوں کے ریموٹ سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ جسے جرنیلوں کی آشیر باد حاصل رہتی ہے کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر جرنیل ملک ریاض کے قبضوں میں معاون ہوتے ہیں۔ اگر ایسے کریمنلز ملک کو کنٹرول کرسکتے ہیں جنہوں نے آج ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ تو جماعت اسلامی کو اقتدار میں کیوں نہیں لایا جاسکتا۔ جو پڑھے لکھے باشعور ، باصلاحیت ،دیانتدار اور خوف خدا پر یقین رکھنے والے ، نظریاتی لوگوں پر مشتمل جماعت ہے۔ جن کی انسانیت اور خدمت خلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایمانت و دیانت میں ان سیاستدانوں سے بہتر ہیں۔ نہ یہ بکنے والے ہیں نہ جھکنے والے ۔ ملک کی تقدیر یہی سنوار سکتے ہیں۔ ن لیگ ، پیپلز پارٹی،پی ٹی آئی ،فضل الرحمن، ایم کیو ایم اور ڈکٹیٹروں کو تو ہم نے بار بار آزما لیا ۔ نتیجہ صفر بٹہ صفر رہا ۔ میری نظر میں ملک کی بہتری اور آخری آپشن صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here