کسی بھی ملک میں خلفشاری اور بربادی پھیلانے کے لئے میڈیا کو خرید کر آغاز کیا جاتا ہے اور لوگوں کو(دوسرے ملکوں اوراپنے ملک کے) باور کرایا جاتا ہے کہ ملک کے بہترین مستقبل کے لئے یہ ضروری ہے ملک کی سلامتی کے لئے یہ قدم اٹھانا ضروری ہے اور تھا۔ جب ہم یہاں آئے(51سال پہلے) تو نکسن(صدر) کے خلاف محاذ کھلا ہوا تھا۔1980میں ریگن صدر بنے اور انہوں نے امریکہ کا نقشہ(انفراسٹرکچر) بدلنا شروع کیا۔ بنک اور آئل کمپنیوں کے ایما پر اور وہاں سے امریکہ اور امریکن کو کارپوریشن کی گرفت میں دے دیاگیا۔
صدر آئزن ہاور نے جنوری1961,17میں قوم کو انتباہ کیا کہ ”جمہوری حکومت کو ملٹری انڈسٹری کمپلیکس سے شدید خطرہ ہے۔آئزن ہاور امریکی تاریخ کے5اسٹار جنرل تھے۔ اور دوسری جنگ کے بعد آئے تھے کامیابی حاصل کرکے انکے بعد جان ایف کینڈی صدر بنے تھے جن کے آنے کے بعدکیوبا کا میزائل بحران شروع ہوا جب روس نے کیوبا میں میزائل کی تنصیب کی کوشش کی تو صدر کینڈی نے روس کو24گھنٹے کی وارننگ دی۔ اور آج یہ معاملہ الٹ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے نیٹو ممالک روس کے پڑوس یوکرین میںNATOکو بٹھانا چاہتے ہیں تو روس کا ردعمل سامنے ہے۔ امریکہ نے ایک صدی سے زیادہ دوسرے ملکوں میں غلط دخل اندازی کرکے وہاں جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کو فروغ دیا ہے اگر جمہوری حکومت امریکہ کے مطلب کی نہیں اسکے علاوہ امریکہ نے اور کلنٹن(صدر) کے بعد اپنی بیرونی پالیسی کو طوالت دی ہے اور کہیں بھی امن لانے کی کوشش نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی سیاست میں کارپوریٹ امریکہ ملوث ہے اور ہتھیار(جنگی) بنانے والوں کی لابی دن رات سرگرم ہے کہ اگر دوسرے ملکوں میں جنگ نہ کرائی جائے تو ان کا کاروبار ٹھپ ہوجائے اور دنیا کو بتانے کے لئے اقوام متحدہ بنا رکھی ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی کا بل یا معاہدہ پاس کرانا ہو اور نہیں تو ویٹو پاور ہے جو فرانس، روس، چین اور برطانیہ کے پاس بھی ہے۔ حالیہ جنگ جو اسرائیل اور حماس میں جاری ہے جس میں حماس کے نام پر فلسطینیوں کو غازہ سے نکالنے کے لئے اسرائیل نے چاروں طرف سے غازہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور دنیا کو میڈیا کے سہارے جو ان ہی کا ہے بتایا جارہا ہے بلکہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ حماس نے ان پر راکٹوں سے حملہ کیا تھا۔ نتیجہ میں اسرائیل اور فلسطین میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے ایک محدود اندازے کے مطابق انوار تک 2470فلسطینی اور1300اسرائیلی شہری جان سے گئے ہیں علاوہ49ہزار فلسطینی زخمی حالت میں دربدر پڑے ہیں ہسپتال میں جگہ نہیں، کھلونوں کی مانند انکی رہائشی عمارات کو گرا کر مسمار کردیا ہے اور آدھے سے زیادہ غازہ کھنڈرات کی تصویر بن چکا ہے ساتھ ہی نتن یاہو(اسرائیل) نے24گھنٹے کی وارننگ دی ہے کہ فلسطینی شمال کوخالی کردیں اور غازہ کے جنوب میں پناہ لیں جو اتنا آسان نہیں، ساتھ ہی اسرائیلی فوجیں کوئی ایسا ویڈیو باہر نہ جانے کی کوشش میں ہیں جس میں ان کی جارحیت کی منہ بولتی تصویر ہو اور ایسا کرنے پر وہREVTERSکے جرنلسٹ اسام عبداللہ کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور فلسطینیوں کا حقہ پانی بند ہے اور ایک راستہ چھوڑا ہے ”تمہیں مرنا ہے” دنیا کے ہر نک، اور امریکہ کے ہر شہر میں اسرائیل کیخلاف مظاہرے جاری ہیں لیکن اسرائیل کو اس کی پرواہ نہیں کہ امریکہ کے صدر بائیڈین اور انکی کابینہ انکے چاروں طرف انکی حفاظت اور مدد کے لئے حاضر ہے۔ پچھلے ہفتہ سے اب تک یہاں ہمیں ڈیلی نیوز میں شائع ایک برطانوی شہری مس منڈی ویژن برگ کا برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے حظ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں جو اس نے غازہ میں پچھلی دفعہ کی کارروائی سے متعلق لکھا تھا۔2012میں اس حظ کی کچھ خاص باتیں لکھنا ضروری ہیں۔
”اسرائیل کو کیوں اپنا اور اپنے وقارکا دفاع کرنا چاہیئے ”وہ ولیم ہیگ سے مخاطب ہے ”تم نے جو بیان کیا ہے کہ اگر اسرائیل اپنے دفاع کی کوشش کرتا ہے اپنی فوج کو غزہ میں اتار کر تو اسے بین الاقوامی ہمدردی نہیں ملے گی” لیکن ہمارے پاس یہ ہمدردی ہے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں اسے بس اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے ”
اور یہ بات آج بھی گیارہ سال بعد اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر غازہ میں دہرائی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے خلاف لفظی محاذ کھلا ہوا ہے آئرلینڈ، روس، چین اور سب سے زیادہ ایران میں لیکن عملی طور پر زیرہ مزاحمت ہے کہ وہ نہتے شہریوں کو بچا سکیں۔ اقوام متحدہ حسب معمول اجلاس کرچکی ہے لیکن امریکہ جو چاہتا ہے وہ ہی ہوگا جو اسرائیل چاہتا ہے۔ اس سے امریکہ کی کارپوریشنز کو تو فائدہ ہو رہا ہے اور ہوسکتا ہے لیکن اسرائیل کو آنکھیں بند کرکے ٹینک، فائٹر جیٹ، بحری جہازوں کا محاصرہ اور مالی امداد دینا امریکی معیشت کے لئے مزید تباہ کن ہوگا۔ امریکہ ایک وقت میں دو ممالک کی بے تحاشہ مدد کرکے کنگال ہو رہا ہے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ اور فرانس چاہیں تو امن لا سکتے ہیں اس خطے میں جو پچھلے75سالوں سے بے یارمددگار ہے جن کی زمینوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے حزب اللہ اور حماس کی آڑ میں اسرائیل اپنی توسیع میں جارحانہ انداز میں جلد بازی سے کام لے رہا ہے انسانی حقوق کی غیر جانبداری کر رہا ہے۔ ایسا وہ کیوں نہیں کرسکتا کہ تمام فلسطینیوں کو وہاں سے نکال کر امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک میں بسا دے اور اسرائیل کا دنیا پر حکمرانی کا خواب پورا کرے اور جرمنی کے ہٹلر کا بدلہ اس طرح نہ لے ان لوگوں سے جنہوں نے اسے پناہ دی ہے۔
صدر بائیڈین سے امید کرنا ایسا ہی ہے گھاس پھونس کی بنیادوں پر سیمنٹ کی دیواریں کھڑی کرنا کہ ان کے اردگرد لابی کا گھیرائو ہے یہاں ہمیں شک ہوتا کہ کیا ہم انسان بھی ہیں۔ بظاہر نہیں لگتا ا اور ایسا کیوں ہے کہ جمہوری ملک میں حکومت کے چند افراد فیصلہ کریں اور عوام کو نظرانداز کردیا جائے سرے سے ہی۔ تاریخ ہمارے سامنے ہے اور یہ یقینی ہے کہ اسرائیل امریکہ کی شے اور سپورٹ سے من مانی کریگا نتن یاہو اپنا ریکارڈ اور کریڈٹ درست کرے گا فلسطینیوں کی جانیں لے کر جو نہتے ہیں جنہیں بند کر رکھا ہے جو مزاحمت نہیں کرسکتے۔ کیا صدر بائیڈین فلسطینیوں کی جان بخشی کروا کر انہیں بحری بیٹروں کی مدد سے باہر نکلوا سکتے ہیں انسانیت کے نام پر کہ جنگ روس سے نہیں اپنے سے زیرہ گنا نہتے فلسطینیوں سے ہے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ فرعون کے وقتوں سے اب تک دنیا میں ملکوں کے نقشے تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ طارق بن زیاد نیولین، سکندر اور چیکو سلاویکیہ کا صدر سنگاپور، ملیشیاء سے اور ملیشیاء انڈونیشیا سے علیحدہ ہوا یہ تاریخ ہے اور جاری ہے افسوس کہ ہماری آنکھوں کے سامنے دہرائی جارہی ہے مزید کیا لکھیں؟۔
٭٭٭٭