!!!فیکٹری کا لگانا کوئی آسان کام نہیں

0
140
حیدر علی
حیدر علی

جب ایک پاکستانی امریکا سے اسلام آباد اپنی ایک فیکٹری لگانے پہنچے تو اُنہوں نے قیاس یہ کیا تھا کہ اُن کا وہاں انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا جائیگاکیونکہ دِن کے چوبیس گھنٹے پاکستان کے وزیراعظم اور اُن کے وزرا حلق پھاڑ پھاڑ کر سمندر پار پاکستانیوں سے یہ اپیل کرتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں لیکن عملا”اُن کا دعوی چائے کے بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ امریکی پاکستانی جب اسلام آباد میں وزارت انڈسٹری کے دروازے پر پہنچے تو استقبالیہ کے ایک اہلکار نے اُن کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا دفتر بند ہے اور کھلا بھی ہوا ہے۔ امریکی پاکستانی نے حیرانگی سے پوچھا کہ محترم یہ بند اور کھلا کا مفہوم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، استقبالیہ کے اہلکار نے جواب دیا کہ سر جی! دیسیوں کیلئے دفتر لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہے لیکن بدیسیوں کیلئے جیسے کہ آپ ہیں جو سوٹ بوٹ میں ملبوس ہیں اُن کیلئے دفتر اسپیشل وجہ سے کھلا ہوا ہے، کیونکہ ہمیں اور ہمارے ملک کو ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔ امریکی پاکستانی نے ایک سو ڈالر کی ایک نوٹ استقبالیہ کے اہلکار کے ہاتھ میں تھمادیا،وہ خوشی خوشی سر جھماکر اُسے قبول کرلیا اور کہا کہ اُن کا ہر کام اِسی طرح سر انجام ہوتا رہے گا، وہ جس سے بھی گفتگو کریں اُسے فورا”امریکی ڈالر کی نوٹ تھما دیں لیکن امریکی پاکستانی جو اپنی فیکٹری کی مشینریز کو کسٹمز اینڈ ریونیو سے چھڑانے کیلئے وہاں پہنچے تھے پاکستان کے دفاتر میں اِس طرح کے نئے کلچر سے نا واقف تھے، جگہ با جگہ اُنہیں مطلع کیا گیا کہ دفتر لاک ڈاؤن کی وجہ کر بند ہے اور پھر آئندہ ہفتے سے دو ہفتے کیلئے عید سعید کی چھٹی میں بند رہیگا اور تقریبا”وہ چھٹی ایک ماہ تک بر قرار رہے گی ۔ اور ہوسکتا ہے کہ اُس کے بعد بقرعید کی چھٹی کیلئے بند ہو جائے کیونکہ ممکن ہے کہ اُس دوران وزارت انڈسٹری کے سارے اعلی حکام حج کیلئے روانہ ہو جائیں اور واپس ہونے کے بعد عملے کے تمام اراکین کوحج کی فضیلت سے آگاہ کرتے رہیں،امریکی پاکستانی کی یہ سُن کر غصے کی کوئی انتہا نہ رہی، اور وہ یہ سوچنے لگے کہ کیوں نہ وہ اُس دفتر کی چٹھی فلور سے کود کر خود کشی کرلیں، کیونکہ اِس اقدام سے شاید اُن کی شکایت وزیراعظم تک پہنچ جائے لیکن اُنہیں یہ بتایا گیا کہ وزیراعظم صاحب خود سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کی دعوت پر تین دِن کیلئے وہاں گئے ہوے ہیں۔ بہرکیف اُنہوں نے اُسی رنج و الم کی کیفیت میں وہاں موجود وزارت کے ایک افسر سے پوچھ لیا کہ اگر دفتر لاک ڈاؤن کیلئے بند ہے تو وہ آخر وہاں کیا کر رہے ہیں، افسر نے جواب دیا کہ وہ افسر آن کال ہیں، جو سمندر پار سے آئے ہوے سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولت پہنچانے کیلئے وہاں تعینات ہیں جو بھی سرمایہ کار جتنا زیادہ ڈالر نچھاور کریگا ، اُس کا کام بھی چھٹ سے اتنی جلدی ہوجائیگا۔ یہ ایکسپریس سروس ہے تاکہ کسی کا کام تاخیر کا شکار نہ ہو لیکن یہ سروس صرف آف دی بُک اُن سرمایہ کاروں کو دی جاتی ہے جوامریکا یا یورپ سے پاکستان سرمایہ کاری کیلئے تشریف لاتے ہیں،اُس افسر نے مزید بتایا کہ یہ نوکری اُس نے سی ایس ایس پاس کرکے نہیں حاصل کی ہے بلکہ سیاسی خدمات انجام دینے کی بنا پر اُسے یہ نوکری دی گئی ہے جب تک اُس کی پارٹی کی حکومت رہے گی اُس دِن تک وہ وہاں نظر آئیگا، جیسے ہی حکومت گئی اُسے ہاتھ پکڑ کر رفو چکر کردیا جائیگا۔ اِس لئے وہ چاہتا ہے کہ جلد از جلد اتنا پیسہ کمالے کہ آئندہ دس سال تک وہ اپنے بال بچوں کی کفالت کر سکے، سرکاری افسر نے منھ کھول کر یہ کہہ دیا کہ اگر وہ پانچ ہزار ڈالر اُسے نذر کر دیں تو وہ اُن کا سارا کام فٹا فٹ کرا دیگا، ورنہ اُنہیں خالی ہاتھ محکمہ انڈسٹری اور پاکستان سے واپس جانا پڑیگا،پاکستانی امریکن نے بادل نخواستہ پانچ ہزار ڈالر اُس سرکاری افسر کو دینے پر راضی ہوگئے اور کراچی واپس چلے آئے لیکن اُن کی پریشانی یہیں ختم نہ ہوئی، دوسرے دِن نیب کے دو اہلکار اُنکے ہوٹل کے کمرے میں وارد ہوگئے، وہ اُس وقت سو رہے تھے، اہلکاروں نے اُن سے دریافت کیا کہ وہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے آئے ہیں، کیا اُن کے پاس اقامہ ہے۔ پاکستانی امریکن نے جواب دیا کہ وہ کوئی وزیراعظم یا وزیر خارجہ نہیں جسے اقامہ کی ضرورت ہے، وہ امریکا ایک ہزار ڈالر لے کر گئے تھے، جس سے وہ وہاں کاروبار کر کے اتنی رقم جمع کرلی کہ اب وہ پاکستان آکر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں.نیب کے اہلکار وں نے اُنہیں بتایا کہ پاکستان سے ایک ہزار ڈالر لے کر جانا اُس زمانے میں منی لانڈرنگ کی زمرے میں آتا تھا، اِسلئے اُن کے خلاف سنگین مقدمہ بن سکتا ہے لہٰذا وہ معاملے کو کچھ لے دے کر ختم کریں، معاملہ دس ہزار ڈالر پر ختم ہوگیا، مگر پاکستانی امریکی کو ابھی کچھ اور امتحان سے گزرنا تھا۔
اُنہوں نے زمین جو اپنی فیکٹری کیلئے خریدی تھی وہ کورنگی کے انڈسٹریل زون میں واقع تھی اور اُس کے بائی لا کے مطابق صرف ایک پاکستانی شہری کو ہی وہ زمین فیکٹری لگانے کیلئے الاٹ ہوسکتی ہے، پاکستانی امریکی کی شہریت تا ہنوز سوالیہ نشان تھی. وہ پاکستان امریکی پاسپورٹ لے کر داخل ہوے تھے، اِسلئے کورنگی انڈسٹریل زون کے اہلکار خود اُن کے پاس اُن کی خدمت کیلئے پہنچ گئے ۔ اُنکا مطالبہ دس لاکھ روپے نقد تھااور ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ بھی تھا کہ فیکٹری کے تمام ملازمین اُن کی مرضی سے رکھے جائینگے۔ اِن ساری باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوے پاکستانی امریکی نے اپنے سر کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر یہ سوچنا شروع کردیا کہ آیا اُنہیں پاکستان میں فیکٹری لگانی بھی چاہیے یا فوری طور پر واپس امریکا چلا جانا چاہئے، اُنہوں نے روتے ہوئے واپس جانے کے فیصلے کو ہی معقول جانا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here