ویسے تو عام تاثر ہے کہ سیاست نام ہی دھوکہ، فریب اور دوغلے پن کا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نظریاتی سیاست کرنے والے لوگوں نے عوامی حقوق اور سیاسی آزادی وجمہوریت کے لئے اپنی جان کا نظرانہ دے کر ثابت کیا کہ نہیں طاقتور اور جابر حکمرانوں کے سامنے نعرہ حق بلند کرنا ہی اصلی سیاست ہے جو لوگ سیاست کو محض اقتدار کے حصول کا راستہ سمجھتے ہیں ،وہ خود غرض اور ذاتی مقاصد کی جدوجہد کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اصولوں اور سچائی کی سیاست بھی قربانی کی سیاست تھی۔ جنہوں نے سیاست کو خدمت اور عبادت سمجھ کر کیا لیکن مارشل لاء کے بڑے نام جنرل ایوب نے مخلص اور پرانے سیاستدانوں پر ایبڈو لگا کر موقعہ پرستی کی سیاست کو بنیادی جمہوریت کا نام دیکر غیر سیاسی عناصر کو پنجابی سطح پر فعال کرکے جمہوریت کا ڈھکوسکہ سامنے لایا اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی نالیوں اور گلیوں کی تعمیر اور مرمت ہی عوام کا اصل مسئلہ ہے۔تو ہم نے آپکی سطح کی حد تک جمہوریت روشناس کردی ہے باقی ملکی سطح کو سیاست کی درد سری مہم سنبھال لینگے۔ پھر جنرل ایوب خان نے افسر شاہی سے چیدہ چیدہ لوگ چنے جن میں الطاف گور اور خواجہ شہاب سرفہرست تھے ساتھ ہی انہوں نے کچھ سرمایہ دار خاندان کچھ کار خانہ دار لوگوں کو ساتھ ملایا جو آگے چل کر بائیس خاندان بنے۔ ایوب خان نے اپنے دراز قد اور گلابی رنگت کا بھی خوب فائدہ لیا اور مغربی حکمران طبقات نے انہیں کھلے دل سے قبول کیا۔ لیکن بدقسمتی سے ایوب خان کی علمی اور ادبی اہلیت کوئی خاص نہیں اسلئے انکے ظاہری رعب اور دبدبے کا سحر کوئی زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ البتہ انہوں نے اپنے آزاد خیالی اور ملا کنونشن کو مغربی دنیا میں دوستیاں جوڑنے کیلئے خوب استعمال کیا انہیں کے دور حکومت میں امریکہ سمیت مغربی مہمانوں سے پاکستان کی قربت میں خوب اضافہ ہوا۔ عالمی سطح پر یہ تاثر زور پکڑ گیا کہ پاکستان مغرب کا اتحادی بن گیا ہے حالانکہ لیاقت علی خاں کے عہد تک یہ کوشش کی جاتی رہی کہ روس اور امریکہ سے تعلقات میں ایک توازن قائم رکھا جائے۔ ایوبی دور میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو جس بیدردی سے تشدد کرکے شاہی قلعہ لاہور میں ہلاک کر دیا گیا اس قتل بے گناہ نے ترقی پسند طبقات میں ایک نئی روح پھونک دی یہیں سے ایوب خان کے حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کی بنیاد کی پہلی اینٹ حسن ناصر کی پرتشدد موت تھی یہ واقعہ13نومبر1960میں ہوا لیکن اس کے بعد تمام ترقی پسند سیاستدان شعرا اور ادیب متحرک ہوگئے۔ ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کی پہلی بنیاد تو1930ء کی دہائی میں رکھو میں پڑ چکی تھی۔ لیکن پاکستان میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی چند بنیادی ممبران میں سے تھے جو پاکستان میں متحرک ہوئے تھے پھر حبیب جالب بھی انکے ساتھ شامل ہوگئے اور پھر فیض احمد فیض اور حبیب جالب نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ذوالفقار علی بھٹونے جب ایوب خان کی کابینہ کو خیر آباد کرکے اپنی جماعت کی داغ ببلی1967ء میں ڈالی کافی جدوجہد کے بعد محنت اور مشقت کے بعد دو سال بعد1967میں پیپلزپارٹی اس نہج پر پہنچی کے1970کے انتخابات میں حصہ لے اور پھر یحیٰی خان کی بے پرواہی اور ہر وقت دھت ہونے کی وجہ سے غلط فیصلے ہوئے اور مشرقی پاکستان کو ہم نے گنوا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان میں ایٹمی قوت کے پروگرام کی بنیاد ڈال کر ڈاکٹر قدیر خان کی مہارت کے ذریعے اس کام میں کامیابی کی پاداش میں پھانسی دیدی گئی۔ ترقی پسند طبقات کیلئے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔ حسین ناصر کی موت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک کا خاتمہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر اختتام ہوا۔ لیکن افواج پاکستان کو بھٹو کا قتل آج تک ہضم نہیں ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی صاحبزادی بھی ایم آر ڈی کی تحریک چلا کر جمہوریت کی بحالی کیلئے قیدوبند کی صعوبتیں سمجھ کر آخر کار1988کے انتخابات میں کامیاب ہو کر پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن سامراجی طاقتوں کو ان کا منتخب ہونا بھی نہیں بھایا اور آخر کار2007ء میں دنیا کی پہلی مسلمان منتخب خاتون وزیراعظم کو لیاقت آباد میں ایک جلسہ کے اختتام پر بموں اور گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا۔ یاد رہے کہ ان کے والد کی پھانسی کا انتظام بھی اسی علاقہ کے آس پاس ہوا تھا اور پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھی یہیں قتل کروایا گیا تھا۔ جس تواتر سے اس علاقہ کو کشمیری قیادت کا قتل گاہ بنایا گیا ہے وہ ایک معنی خیز پیغام ہے۔
اب ایک نئی جماعت اور قیادت تحریک انصاف اور عمران خان کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ تجربہ پہلےi-J-Tبنا کر ماضی میں کیا گیا تھا لیکن وہ زیادہ چل نہیں سکا اب سوشل میڈیا کے سہارے ایک مقبول کرکٹر کے ذریعے عوام کو اینٹی امریکن سیاست کا ٹریلر دکھایا جارہا ہے جن کا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ نے انکے خلاف سازش کی ہے یہ جعلی بھٹو حکومت سے فارغ ہونے کے بعد فوج اور امریکہ کے خلاف بات کرکے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اندرون خانہ فوج سے معافی تلافی اور امریکہ کو سامنے کیلئے مبلغ پچیس ہزار ڈالر ادا کرکے امریکہ کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ منافقانہ اور دوغلی سیاست کی ایک جھلک!۔
٭٭٭٭٭