فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے: ترجمعہ: خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ذکر کی فضلیت کو سمجھنے سے پہلے انسان کی ترکیب پر غور کرتے ہیں، انسان چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک جسم اور ایک روح، جسم کشیف ہے اور روح لطیف ہے جسم چونکہ اس جہان کا ہے اور کشیف ہے ۔ اس غذائیں بھی اس جہان کی ہیں اور روح چونکہ پردیس ہے یہاں کا باشندہ نہیں ہے۔ اور لطیف ہے اس کی غذا بھی لطیف ہے اور چونکہ پردیس جس دیس سے یہ آئی ہے اس کی غذا بھی وہیں سے آتی ہے۔ مثلاً قرآن پاک کی تلاوت اس کی غذا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قَل الرَّ وْحْ مِنْ اُمِْر ربِیّ یعنی اے محبوب افرما دو! روح میرے رب کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا رب اور پالنے والا ہے۔ ہر ایک کو غذا اس کی شان کے لائق عطا فرماتا ہے حیوان کو چارہ اور انسان کو غلہ وغیرہ سب مدی غذائیں عطا فرمائیں روح کو تلاوت قرآن، اپنا ذکر اور ذکر مصطفیٰ علیہ الصّلوٰة والسّلام جیسی غذائیں عطا فرمائیں۔ اور جسم کو مرغ مسلم، چاول اور روٹی وغیرہ غذائیں عطا فرمائیں۔ اس مضمون کو شیخ فرید الدین علیہ الرّحمة نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ذکر حق ایک پاکیزگی ہے اور وہی اس کی غذا ہے اشعار عطا رضی اللہ عنہ! یاد حق آند غذایں روح را۔ مرہم آمد اس دل مجروح رہا۔ زندہ دار از ذکر حق صبح وشام را۔ درتفاصل بگر”راین ایامُ” ترجمعہ: ”اس روح کی غذا اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اس زخمی دل کے لئے مرہم ہے۔ اپنے صبح وشام کو اللہ کے ذکر سے آباد کرلے۔ اپنی زندگی اسی کام میں گزارے” بہرحال ذکر حق روح کی غذا ہے جیسے کبھی کبھی جسم بیمار ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر اور طبیب سے اس کا علاج کروایا جاتا ہے اسی طرح کبھی کبھی روح بھی بیمار ہوجاتی ہے جسم کی دوائیں یہاں سے ملتی ہیں اور روح کی دوا اور غذا اس کے دیس سے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے قرآن پاک اتارا ہے اس میں شفا بھی ہے اور اہل ایمان کے لئے رحمت بھی ہے۔ اس لئے پیر رومی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ترجمہ: ”یہ بدن کے طیب بہت ہی سمجھ دار اور نباّض ہیں، بیماری تیرے جسم کے اندر ہے مگر یہ تجھ سے تیری بیماری بہتر جانتے ہیں۔ جس طرح طبیب بدن کے اندر کی بیماری پہچان لیتے ہیں اسی طرح روحانی طبیب بھی تیرے اندر کے راز ونیاز پہچان لیتے ہیں” مگر افسوس بعض لوگوں کا ڈاکٹر وطبیب پر ایمان ہے مگر روحانی طبیب پر ایمان نہیں فوراً فتویٰ یاد آجاتا ہے جی اندر کی باتیں صرف خدا ہی جانتا ہے۔ کاش یہی بات یہ ڈاکٹر سے کہیں جی آپ کو میری مرض کا کیا پتہ وہ تو اندر ہے بس خدا ہی عقل وشعور عطا فرمائے۔ جسم کی پاکیزگی پانی سے ہوئی ہے وگرودح کی پاکیزگی کا طریقہ حضرت شیخ فرید الدین عطا نے بتایا ہے رضی اللہ عنہ ترجعہ:” جہاں پانی بہتا ہے وہاں سبزہ آگتا ہے اور جہاں آنسو بہتے ہیں وہاں خدا کی رحمت پرستی ہے اور ذکر حق پاکی ہے تو جہاں پاکی آتی ہے پلیدی بھاگ جاتی ہے” جس طرح بندہ ظاہری ڈاکٹروں کی تلاش کرتا ہے اور ان کے پاس جاتا ہے شفا مانگتا ہے اور پھر بھی مشرک وکافر نہیں ہوتا تو اسی طرح روحانی حکماء اور اطباء جو انبیاء و واولیاء علیھم الصّلواة والسّلام ہیں کے پاس روحانی علاج کے لئے جانا بھی کفرو شرک نہیں ہے کیوں کہ یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ دونوں صورتوں میںیعنی جسم و روح کو شفا دینے والا اللہ ہے یہ لوگ سبب ہیں تو مجازی طور پر اگر نسبت سبب کی طرف بھی کر دی جائے تو کوئی حرج لازم نہیں آتا۔
دونوں کے پاس اپنا اپنا تجربہ اور علم ہے اس علم کے ذریعے وہ بیماری کو جان کر دوائی تجویز کرتے ہیں ڈاکٹر اور طبیب کے پاس تو ظاہری علم ہے جبکہ اولیاء کا ملین تو باطنی علوم سے مزّین ہوتے ہیں۔ وہ تو علوم خمسہ ظاہرہ کے سوا باطنی حواس خمسہ سے بھی نوازے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس تو نور فراست ہوتا ہے۔ حضور نبی کریمۖ نے اسی لئے تو فرمایا ہے: مئومن کی فراست سے ڈرو، وہ نور خدا سے دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا کرّم اللہُ تعالیٰ وَجھہ الکریم نے رات کو خواب میں دیکھا کہ صبح کی نماز کا وقت ہوگیا ہے اور خواب میں مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو حضور پاکۖ کو مصلّٰئی امامت پر پایا اور آپ علیہ الصّلٰوة والسّلام کے پیچھے ن ماز ادا فرمائی فرماتے ہیں کہ بہت ہی لطف آیا کیونکہ کافی ایام کے بعد حضور علیہ الصّلوٰة والسّلام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا جب حضور علیہ الصّلٰوة والسّلام نے سلام پھیرا تو ایک ٹوکرہ کھجوروں کا کسی نے آپ کی بارگاہ میں پلیئں رکھا جو آپ نے صحابہ علیھم الرّضوان میں تقسیم فرمایا: جس میں سے ایک کھجور مجھ کو بھی عطا فرمائی۔ وہ ذائقہ میرے منہ میں موجود تھا کہ مجھے جاگ آگئی واقعی صبح کی نماز کا وقت ہوچکا تھا جلدی جلدی مسجد میں حاضر ہوا کیا دیکھا کہ حضرت عمر اللہ عنہ جماعت کروا رہے ہیں۔ بعد جماعت کھجوروں کا ایک ٹوکرہ پیش کیا گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کھجوریں نمازیوں میں تقسیم کیں۔ مجھے ایک کجھور دی میں نے ایک اور مانگی فرمایا۔ اگر حضور پاک علیہ الصّلوٰة والسّلام نے آپ کو دو دی ہوتیں تو میں بھی آپ کو دو دیتا۔ عرض کی وہ تو میرا خواب تھا۔ آپ کو کیسے پتہ چل گیا۔ تو فرمایا: حضور علیہ السّلام کا فرمان نہیں ہے؟ کہ مئومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور خدا سے دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭