اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام !!!

0
40

جنگِ عظیم دوم کے بعد جب ملکوں پر قبضہ اور قوموں کی غلامی کے نو آبادیاتی والے ماڈل کا چلنا ممکن نہیں رہا تو لیگ آف نیشنز کو ختم کرکے یونائیٹڈ نیشنز کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس نئی جمعیتِ اقوام میں پانچ بڑی طاقتوں کو عالمی سلامتی کے اہم مسائل پر ویٹو پاور دے دی گئی تاکہ کمزوروں اور خاص طور پر تیل کی دولت سے مالا مال، امتِ مسلمہ کوقانونی طور پر زیرِ نگرانی رکھا جاسکے۔ اقوام متحدہ کی یہ نئی ساخت امریکہ بہادر کی پسند کے عین مطابق تھی اور وہ نہ صرف اس کے بڑوں میں شامل ہوگیا بلکہ اپنے ڈالروں کو استعمال کرکے، اس کی کمان بھی سنبھال لی۔ جالب نے کیا خوب کہا تھا کہ!
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
حقیقی نو آبادیات میں رہنے والے لوگ جب مجازی استعمار کے زیرِ نگین ہوگئے تو انہیں غلام بنانے والے اپنے اپنے ملکوں کو سدھارے تو سہی مگر ساتھ ساتھ ایک ایسا طریقہ کار بھی وضع کرتے گئے کہ گورے انگریزوں کی بجائے کالے انگریز ان کے مفادات کا تحفظ کرنے لگے اور اقوامِ متحدہ کا نظام اس مفاد پرستی اور اجارہ داری کا ضامن بن گیا۔علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں صرف لیگ آف نیشنز کا مشاہدہ کیا تھا اور اس پر کافی تنقید بھی کی تھی۔ اگر وہ اقوامِ متحدہ کی ساخت دیکھتے تو یقینا مزید پریشان ہو جاتے۔ اپنی ایک مشہورِ زمانہ نظم میں انہوں نے لیگ آف نیشنز کے بارے میں فرمایا تھا کہ!
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن
پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ
ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
لیگ آف نیشنز کیلئے ابلیس کا تعویذ شاید یہی نسخہ کیمیا تھا کہ ویٹو کا نظام لایا جائے اور اسی وجہ سے جمیعتِ اقوام کو قائم رہنے کیلئے مزید مہلت بھی مل گئی۔ اقوامِ متحدہ کا صدر دفتر نیویارک میں ہونے کی وجہ سے ہر سال یہاں ہمارے گھر کے قریب مینہٹن میں ہفتہ اقوام متحدہ منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے سربراہ یہاں آکر جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں تقاریر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ NGOs اور UN کے مختلف اداروں کی میٹنگز بھی ہوتی ہیں۔ احتجاجی مظاہرے، اس پہلے سے ہی مصروف ترین شہر نیو یارک کو مزید پررونق بنا دیتے ہیں۔ ڈپلومیسی کی گہماگہمی میں چھوٹے بڑے سب ممالک اور ادارے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ہماری تنظیم زکوا فانڈیشن آف امریکہ کو بھی اقوامِ متحدہ میں ECOSOC کی ممبرشپ حاصل ہے۔ ہماری خصوصی دلچسپی عالمی سیاست کی بجائے، دنیا بھر کے تارکینِ وطن کی بحالی ہے۔ اس سلسلے میں UNHCR اور UN IOM کی دو ایجنسیاں، اقوامِ متحدہ کے تحت قائم ہیں۔ ہماری کوشش اس سال بھی یہی رہی کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرکے ان دونوں اداروں کو مزید فعال بنایا جائے۔ بدقسمتی سے، تارکینِ وطن کی بہت بڑی تعداد مسلم دنیا سے تعلق رکھتی ہے لیکن مسلمانوں کے اپنے وسائل بھی ان مظلوموں اور مجبوروں کے کام نہیں آ پاتے۔ ان دونوں اداروں کے علاوہ UNICEF اور UNWRA کے ساتھ بھی ہمارا تعاون جاری رہتا ہے۔
امریکہ کی موجودہ انتظامیہ کو اقوامِ متحدہ کی شاہ خرچیوں پر بڑا اعتراض ہے اور وہ مختلف ایجنسیوں کو دئیے جانے والی اپنی امداد میں کمی کر رہی ہے۔ اس سال تقریبا ساری میٹنگز میں فنڈز کی کمی کے چرچے رہے۔ ذاتی طور پر میں بھی UN کے وسائل کے ضیاع والی پالیسیوں کا مخالف ہوں۔ دنیا کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کی بجائے اسے کئی مختلف تہذیبوں کی طرز معاشرت کو تبدیل کرنے کی زیادہ فکر رہتی ہے اور تبدیلی کی ان ہی بے ربط کوششوں کی وجہ سے، ذہنی آلودگیوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگیوں نے بھی خوب تباہی پھیلاء ہوئی ہے۔ اختر ملک کے بقول
آ لودگی کا زہر وہ پھیلا کہ شہر میں
آئے تھے جتنے لوگ بھی گاں سے چل بسے
علامہ اقبال نے لیگ آف نیشنز کے زمانے میں ہی محسوس کر لیا تھا کہ دنیا میں بڑی چھوٹی کئی اقوام موجود رہیں گی اور اسی لئیے جمعیت اقوام کی ہر تنظیم میں بے انصافیاں ہی ہوتی رہیں گی۔ وہ جمعیتِ اقوام کی بجائے جمعیتِ آدم کے قائل تھے تاکہ ہر قوم کے افراد کو دوسری قوم کے لوگوں کے قریب لایا جائے۔ ان کے زمانے میں تو یہ ممکن نہیں ہو سکا تھا لیکن آجکل سوشل میڈیا کے دور میں لگتا ہے کہ ان کے احکامات پر عمل ممکن ہو جائے گا۔
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here