کوئٹہ سے ایران جانے والی آر سی ڈی شاہراہ کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ پرانے چاغی ڈسٹرکٹ کے بیچ سے گزرتا ہے۔ اب چاغی دو اضلاع میں منقسم ہو چکا ہے، نوشکی اور چاغی۔ ایک زمانے میں اس وسیع و عریض ضلع کا ہیڈ کوارٹر نوشکی ہوتا تھا۔ اس شہر کے بیچوں بیچ ایک پہاڑی واقع ہے جس پر انگریز پولیٹیکل ایجنٹ / ڈپٹی کمشنر نے اپنا گھر بنایا تھا، جو آج تک ڈپٹی کمشنروں کا مسکن ہے۔ اس پہاڑی پر کھڑے ہوں تو جنوب مغرب کی سمت آپ کو بلندوبالا سیاہ سنگلاخ پہاڑ نظر آئیں گے یا ریت کا صحرا۔ ریت کے یہ ٹیلے اپنے زہریلے سانپوں کی وجہ سے اس قدر مشہور ہیں کہ بھارت سے بھی سپیرے سانپ پکڑنے یہاں آتے ہیں۔ سورج غروب ہوتا ہے تو ریت کے یہ ٹیلے سونے کے ذرات کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔ آر سی ڈی شاہراہ پر کوئٹہ سے ایران کی طرف سفر کریں تو دائیں ہاتھ افغانستان ساتھ ساتھ چلتا ہے، کہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر اور کہیں ذرا دور۔ اس سڑک پر نوشکی کے بعد صرف ایک ہی بڑا شہر دالبندین واقع ہے، جہاں آرام دہ رات گزارنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کا ریسٹ ہائوس ہوا کرتا تھا۔ چاغی میں بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ/ ڈپٹی کمشنر اپنے قیام کے دوران میں بار ہا اس ریسٹ ہائوس میں ٹھہرا ہوں۔ لیکن یہاں میرا پہلا قیام 1980 میں ہوا تھا جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور اقوام متحدہ کے منشیات کی روک تھام والے ایک ادارے کے لئے اس بات پر ریسرچ کر رہا تھا کہ بلوچستان میں کس قدر لوگ ہیروئن پیتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب میں وہاں ٹھہرا تو میرے ساتھ والے کمرے میں ایک انگریز خاتون بھی موجود تھی جو پورے برصغیر میں گورا قبرستانوں پر تحقیق کر رہی تھی۔ وہ انگریزوں کی قبروں کے کتبے کیمرے میں بھی محفوظ کرتی اور اگر کوئی بڑا بوڑھا مل جاتا تو تھوڑی بہت معلومات حاصل کر لیتی۔ اس ریسٹ ہائوس میں لاتعداد لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ ایک پوری کتاب ان تمام شخصیات پر لکھی جا سکتی ہے جو یہاں وقتا فوقتا قیام کرتی رہیں اور میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ سلمان بن عبدالعزیز شکار کھیلنے آ تے تو پہلا پڑائو یہیں پر ہوتا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان چاغی دھماکے کے لئے تشریف لائے تو یہیں ان کا ٹھکانہ تھا۔ اسی دالبندین ریسٹ ہائوس میں میری ملاقات آسٹریلیا کی کمپنی BHP کے سربراہ سے ہوئی جو اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے وہاں آیا تھا۔ اس کمپنی نے 1993 میں بلوچستان حکومت کے ساتھ چاغی کے علاقے میں سونے کی تلاش کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت جو سونا، تانبہ، پیتل یا چاندی یہاں سے برآمد ہونا تھا اس میں سے 75 فیصد شیئر بی ایچ پی کمپنی کا اور 25 فیصد بلوچستان حکومت کے حصے میں آنا تھا۔ عموما ایک نگاہ میں یہ معاہدہ ایسے لگتا ہے جیسے گھاٹے کا سودا ہے۔ لیکن اگر سونے کی کان کنی کے عمل کو دیکھا جائے تو یہ محسوس ہو گا کہ اس سے بہت بہتر معاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سونے کی کان دراصل اوپر کی سطح پر کھدائی کرنے والی کان ہوتی ہے، جیسے بھٹوں کی اینٹیں بنانے کے لئے زمین کھود کر مٹی نکالی جاتی ہے، ویسے ہی بڑے بڑے مٹی کے تودے کھود کر مشینوں میں ڈال کر ریزہ ریزہ کئے جاتے ہیں اور پھر ان سے مٹی علیحدہ کی جاتی ہے۔ یہ ایک مشکل عمل ہے۔ اس کے بعد جو خالص دھاتی ذرات میسر آتے ہیں، انہیں ایک بہت بڑی مشین میں ڈال کر اسی کی موٹی موٹی سلاخیں بنائی جاتیں ہیں۔ ان موٹی موٹی سلاخوں میں لوہا، سونا، چاندی، تانبہ اور پیتل سب ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ان کو پھر ریفائنری میں لے جا کر علیحدہ علیحدہ کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر سونا اس میں 0.2 فیصد کے قریب ملتا ہے۔ یہ ایک بہت محنت طلب اور خصوصی مہارت کا کام ہے۔ یہ مہارت اگر آپ کے پاس نہ ہو تو آپ کے لئے یہ سونے کے ذخائر مٹی کے ڈھیلوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔ میں بی ایچ پی کمپنی کے سربراہ کو ملا تو انہیں وہاں کام کرتے ہوئے تقریبا دو سال ہو چکے تھے۔ میں نے وہ ذخائر جنہیں ریکوڈک کہتے ہیں ان کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ ذخائر سیندک کے برابر کے ہی ہیں، تو اس نے جواب دیا کہ اگر ہم نے سیندک جتنے ہی ذخائر ہی حاصل کرنا ہوتے تو ہم پہلے چند مہینوں میں ہی اپنا بوریا بستر لپیٹ لیتے۔ یہ دنیا کے دوسرے بڑے سونے کے ذخائر ہیں۔ سیندک کی المناک داستان میرے ذہن میں تھی کہ کیسے اس سونے اور تانبے کی کان کا حشر کیا گیا اور اب چینی اس سے سونا نکال کر اپنا لگایا ہوا سرمایہ ہی واپس لے رہے ہیں اور ہمارے پلے کچھ نہیں آیا۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن ریکوڈک کے ساتھ بھی ایسے ہی کچھ ہو جائے گا۔ افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو افغان بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے بی ایچ پی نے اپریل 2000 میں اپنا بوریا بستر لپیٹا اور آسٹریلیا کی ہی ایک چھوٹی سی کمپنی “Mincore” کو اپنے حقوق بیچ کر چلی گئی۔ گیارہ ستمبر کا سانحہ آیا، افغانستان بارڈر کے نزیک ہونے کی وجہ سے کبھی کام ہوتا اور کبھی نہیں، مگر کام چلتا رہا۔ کمپنی کے پاس سرمایہ کم تھا اس لئے 2006 میں اسے کینیڈا کی کمپنی TCC نے خرید لیا۔ اس وقت تک ابتدائی کام مکمل ہو چکا تھا اور جہاں جہاں ذخائر موجود تھے ان کا پتہ چلا لیا گیا تھا۔ اب کان کنی کا آغاز ہونا تھا۔ ایسے میں بڑی بڑی للچائی ہوئی نظروں نے اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ جب 1993 میں معاہدہ کیا گیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سونے کا مسلسل انڈہ دینے والی مرغی نکل آئے گی۔ اسی سال یعنی 2006 میں بلوچستان ہائی کورٹ میں اس معاہدے کو چیلنج کر دیا کہ یہ پاکستان کے آئین کے خلاف ہے۔ لیکن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ لائسنس درست ہے۔ کام دوبارہ شروع ہوا، اور جب کان کنی کا لائسنس 2011 میں مانگا گیا تو حکومت بلوچستان نے کمپنی کو کان کنی کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ سے سلاخیں بھی یہیں بنائو اور ریفائنری بھی یہیں لگائو۔ یہ اس لئے ناممکن تھا کہ یہ دونوں کام چین میں ہوتے ہیں تاکہ لاگت کم آئے اور کوئی کمپنی اتنی بڑی سرمایہ کاری خود سے نہیں کرتی۔ دراصل بلوچستان حکومت کو پاکستان کے کچھ شعبدے باز سائنس دانوں نے یہ جھانسہ دیا تھا کہ ہم خود ہی یہ سارا کام کر لیں گے اور خوب منافع کمائیں گے۔ یہ صاحب تھر کول مائن میں بھی ایسا ناکام تجربہ کر چکے ہیں۔ کمپنی فورا ورلڈ بینک کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر چلی گئی۔ ادھر سپریم کورٹ میں جسٹس افتخار چوہدری نے بھی 2013 میں 1993 کے معاہدے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ لیکن ورلڈ بینک کی عدالت نے جب معاہدات دیکھے اور پتہ لگا کہ کمپنی اب تک 220 ملین ڈالر خرچ کر چکی ہے تو 12 جولائی 2019 کو انہوں نے پاکستان پر چھ ارب کا جرمانہ عائد کر دیا۔ پاکستان ایئر لائن کے نیو یارک اور پیرس والے دو ہوٹل اور دیگر سرمایہ قبضے میں لے لیا گیا۔ حکومت اب منتوں ترلوں پر اتری تو بینک نے عملدرآمد روک کر کہا کہ آپس میں جا کر معاملات طے کر لو۔ اس پر مذاکرات شروع ہوئے اور جرمانہ بڑھتے ہوئے 10 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ مارچ 2022 کو عمران خان کی حکومت نے کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا جس کے تحت 10 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی معاف ہوا اور مزید دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی ہو گیا، مگر سپریم کورٹ میں پھر کوئی عام شہری جا پہنچا۔ اس دفعہ سپریم کورٹ نے فورا کیس نمٹایا اور اپنے 9 سال پرانے فیصلے کو غلط بتاتے ہوئے 1993 کے اصل معاہدے کو درست قرار دے دیا۔ لیکن اس سارے معاملے میں اس قوم کے گیارہ سال قیمتی بیت گئے۔ وہ گیارہ سال جو اس قوم کی تقدیر بدل سکتے تھے۔
٭٭٭