ہم پاکستانیوں کے نام!!!

0
7

میری ایک دوست جو پہلے اسی شہر میں رہتی تھی پھر اسے دوسرے شہر جانا پڑا ، پچھلے 1 سال سے ہر ماہ کچھ رقم ایک فیملی کے لیے مجھے بھیجتی ہے ۔ وہ میرے اکائونٹ میں رقم ٹرانسفر کرتی ہے اور میں وہ پیسے اس سفید پوش خاتون کو دے دیتی ہوں جس کو وہ پہلے دیتی تھی۔ ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو وہ خاتون میرے گھر سے آ کر لے جاتی ہے ۔ اس بار پانچ تاریخ گزر گئی وہ نہ آئی ، 10 اگست تک بھی وہ پیسے لینے نہ آئی ۔ مجھے فکر ہونے لگی کیونکہ وہ اس رقم سے مکان کا کرایہ دیتی تھی ۔ دوست کو بتایا کہ وہ نہیں آئی ، فون کرکے پتا کرو ، بولی گر تم خود پہنچا دو تو مہربانی ہوگی ، اس کا اپنا موبائل نہیں ہے اور اس کے میاں کا کچھ ماہ پہلے چوری ہوگیا ، میں نے ایڈریس لیا اور پچھلے اتوار کو اس کے گھر گئی ۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہی گھر تھا ، گھر کیا تھا ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل ملبہ تھا ، خستہ دروازہ ، کمرے کے باہر چولہا رکھا ہوا ، ٹوٹا پھوٹا ٹائلٹ اور اس کھنڈر کا بھی 9 ہزار ماہانہ کرایہ تھا ۔ گھر میں اس کے دو بچے جو 9 اور 6 سال کے تھے آپس میں کھیل رہے تھے۔ پتا چلاکہ بچے کی پیدائش ہوئی ہے کچھ ہفتے پہلے ، شوہر مزدوری ڈھونڈنے نکلا تھا ۔ نومولود بچہ ایک کپڑے میں لپٹا اس کے پاس چارپائی پہ کسمسا رہا تھا ، اس کا ننھا جسم پسینے سے شرابور تھا، مجھے اس معصوم پر بہت ترس آیا ۔ پوچھا پنکھا کیوں نہیں چلایا ؟ کہنے لگی ایک پیڈسٹل فین تھا ، وہ پچھلے ماہ بیچا ، ہمارے پاس آپریشن کے پیسے نہیں تھے اب بغیر پنکھے کے ہی گزارا کر رہے ہیں ۔ وہ خود بھی بہت کمزور تھی جیسے کئی دنوں سے کچھ نہ کھایا ہو ، ہلدی کی طرح پیلی ۔ وہاں بیٹھ کے میرے دل کو کچھ ہو رہا تھا ، میں پچھلے ایک سال سے اس کو کرایہ تھما دیتی تھی ، کبھی اس کے گھر کے حالات اس سے نہیں پوچھے کہ یہ پانچ جاندار آخر کیسے جی رہے ہیں ، کہ جس ماحول میں یہ جی رہے تھے انسان کا جینا مشکل تھا ۔ اس نے جو حالات بتائے وہ صرف سنے ہی جا سکتے تھے سہنا مشکل تھا ۔ شوہر کو کبھی مزدوری ملتی کبھی نہیں ، ایک دن چھوڑ کر فاقہ ، آٹے کا ڈرم تقریبا خالی تھا ، بچے جیسے صومالیہ کے فاقہ کش ۔ لیکن پھر بھی وہ صابر شاکر خاتون نکلی ، ہر بار آتی چپ چاپ کرایہ لے کر چلی جاتی عزت نفس کے ہاتھوں اس نے ایک بار بھی نہیں کہا ، آج میرے گھر میں آٹا نہیں ہے یا آپریشن کروانا ہے پیسے چاہئیں۔ہائے یہ غربت ! اور اس پہ عزت نفس ! ہم تو ان کو چہروں سے پہچاننے سے بھی گئے ۔ کتنی بار یہ خاتون میرے گھر آئی ، مجھے کیوں نہ لگا کہ یہ اور اس کے بچے فاقوں سے ہیں ، ان کو صرف مکان کا ہی نہیں ، جسم کا کرایہ بھی بھرنا ہے ، سانس کا بھی شرمندگی سی شرمندگی تھی ۔ پرس میں تھوڑے سے پیسے تھے ، وہ بھی کرائے کے ساتھ تھمائے کہ آج کی سبزی اور آٹا لے لینا ۔ اس بیس دن کے سانولے ، نرم و ملائم بچے پہ ترس آیا جو گرمی اور حبس سے پگھلا جا رہا تھا ۔ میرے لیے بھی وہاں بیٹھنا مشکل ہورہا تھا، تپش اور حبس سے کپڑے تر ہونے لگے ، کبھی یہ ماحول دیکھا ہی نہ تھا ، ہم اے سی کی ٹھنڈک میں پوسٹیں لکھنے والے لوگ ۔ اس تجربے سے کب گزرے ہیں ۔ شرمندہ سی اُٹھ کر گھر آئی ، اور تو کچھ نہ ہوسکا کچن میں بڑا بریکٹ فین لگوایا تھا پچھلے سال ، بیٹے سے کہا اتار کر گاڑی میں رکھو ، مصالحہ جات کے پیکٹ اکٹھے کیے ، راستے سے سبزی ، دودھ کے پیکٹ اور آٹے کا تھیلا لیا اور عصر کے وقت اس کے گھر دے آئی ۔ اس کے میاں نے دروازہ کھولا ، ایک تھکا ہوا اور مسکین سا چہرہ ، کہا میرے بھائی ابھی اپنے کمرے میں یہ پنکھا فٹ کرو تاکہ اس ننھی معصوم کی جان میں جان آئے ۔ پنکھا چلا تو وہ معصوم سکون میں آ گیا ۔ نکلتے ہوئے خاتون سے اتنا کہا، جب تمہیں لگے کہ بھوک جیت رہی ہے ، مزدوری نہیں لگی ، بچے خالی پیٹ ہیں تو اشارے سے ہی بتا دیا کرو لیکن بچوں کو بھوکا نہ سلایا کرو ، ان ننھی روحوں کو تو غربت کا بھی ادراک نہیں ۔
وہاں سے واپس آ کے بھی دل بے چین تھا ، ہم کتنے بیخبر ہیں ، کتنے گھروں میں زندگیاں ایڑیاں رگڑ رہی ہیں اور ہم انٹر نیٹ کی سپیڈ سلو ہونے پر پریشان ہوجاتے ہیں ۔ کتنے ہی گھرانے ایسے ہوں گے جہاں دوسرے وقت کا آٹا نہیں ہے اور ہم اے سی نہ چلنے پر دُکھی ہوتے ہیں ۔ ہائے یہ ،سفید پوش گھرانے ، مانگتے بھی نہیں اور کھل کے جیتے بھی نہیں اور مرتے بھی نہیں ، بہت سخت حالات ہیں ، آس پاس نظر کیجیے ۔ ڈھونڈنے بھی نہیں جانا پڑے گا ۔ کوئی بہت اپنا ، یا پرایا دستِ سوال دراز کرنے میں ہچکچاتا ہوگا ، لیکن مشکل میں ہوگا، کسی گھر کا مرد روزانہ خالی ہاتھ گھر آتا ہوگا ۔ہم ان کو ان کے چہروں سے نہیں پہچان پاتے تو ان کے گھروں میں جاکر دیکھ لیجیے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here