لبیک سے البیک تک: خوابِ مشرق یا سحرِ مغرب!!!

0
31

ہمارے سفرِ حج کی ابتدا تو نیو یارک سے ہی ہوگئی تھی مگر جب قاہرہ میں احرام باندھا تو مختلف پابندیوں کے علاوہ حج کی تلبیہ کا بھی باقاعدہ آغاز ہوگیا۔
لبی اللہم لبی لبی لا شرِی ل لبی ِن الحمد والنِعم ل والمل لاشرِی ل
بلند آواز سے یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے ہم جدہ، مکہ، مسجد الحرام اور منی سے ہوتے ہوئے جب عرفات کے میدان تک پہنچے تو تلبیہ کے اس لبیک نے بھی اپنے عروج کو چھو لیا۔ ہمارے گروپ کے حجاج میں مغربی ممالک سے آئے ہوئے نوجوانوں کی بھی خاصی تعداد شامل تھی۔ اسی لئے گروپ انتظامیہ نے عرفات کے کھانے میں البیک کے بروسٹ چکن کے بڑی خوبصورت پیکنگ والے باکسز بھی شامل کئے ہوئے تھے۔ لبیک کی صداں کے درمیان البیک کی چکن کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ خاص طور پر گروپ کے نوجوانوں کی البیک کے بروسٹ میں دلچسپی دیکھ کر مجھے یہ تحریر لکھنے کا خیال آیا۔ ستر کی دہائی کے شروع میں پاک و ہند کے مسلمان، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ہجرت کر کے پہنچے تو بڑا خطرہ تھا کہ وہ مغربی تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیں گے اور وہ بھی صدی کی شروع میں آنے والے عرب اور ترکوں کی طرح میلٹنگ پاٹ میں میلٹ نہ ہو جائیں۔ لیکن برِ صغیر والے، اپنی بران اور سانولی رنگت اور پھر ذبیحہ حلال اور تراویح جیسے شعائر اسلام کی ترویج پر اسٹینڈ لینے کی وجہ سے اپنا ایک علیحدہ تشخص بنانے میں کامیاب رہے۔ اب تقریبا نصف صدی بعد ،مسلم کمیونیٹیز ، مغرب میں تو ترقی کر ہی رہی ہیں، لیکن وہ عالمِ اسلام میں بھی اپنا وجود منوا رہی ہیں۔ مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر یہ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ ملتِ اسلامیہ کی دیگر اسٹیبلشڈ کلچرل زونز کی طرح مغربی ممالک میں رہنے والے Overseas مسلمانوں کے کلچر کو بھی ایک نمایاں جگہ مل چکی ہے اور انہیں اب ایک علیحدہ مسلم کلچرل زون کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ اس مرتبہ مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران، انگریزی اور دیگر مغربی زبانیں بولنے والے افراد کی بڑی تعداد نظر آئی۔ وہ لوگ ڈجیٹل تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے، سمارٹ فونز اور دیگر گیجٹز کے ساتھ ساتھ، دعاں اور مناجات کی فوٹو کاپیاں پکڑے ہوئے تھے، جن میں عربی، ٹرانسلیٹریشن اور ٹرانسلیشن موجود تھی۔ مقامی مفتیوں کے فتووں کی بجائے وہ شیخ عمر سلیمان، شیخ یاسر قاضی اور امام آصف ہیرانی جیسے اسکالرز سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ ان مغربی مسلمانوں کی تعداد اب اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ ان کیلئے واش رومز کا ایک متوازی نظام وجود میں لایا گیا ہے۔ مغربی ٹوائلٹس کو مسلم شاورز سے آراستہ کیا جا رہاہے۔ تیس سال پہلے، انگلش سائنز (signs) بہت کم تھے۔ اب ہر جگہ عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی ترجمے کا سائن لگا ہوا نظر آتا ہے۔ کھانے پینے کا نظام تو اس انقلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ مکہ معظمہ نے اپنے ان مہمانوں کیلئے، ہر طرح کے مغربی حلال ریسٹورانٹ کھول دئیے ہیں۔ پیزا ہٹ (Pizza Hut)سے لیکر برگر کنگ تک ہر طرح کی مغربی فاسٹ فوڈ چینز موجود ہیں۔لگتا ہی نہیں کہ آپ مکہ کے فوڈ کورٹ میں کھانا کھا رہے ہیں یا لندن و نیو یارک کے کسی مال میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مغربی برانڈز کے دیکھا دیکھی، کچھ مقامی فوڈ چینز بھی وجود میں آچکی ہیں بلکہ ان میں سے چند تو بہت ہی زیادہ پاپولر ہیں۔ ان میں ایک البیک ہے، جس کی لمبی لمبی لائنیں بہت مشہور ہو گئی ہیں۔ کعبہ کی فضاں میں جس طرح لبیک الھم لبیک کی آوازیں گونج رہی ہیں، کچھ اسی طرح سے البیک کی باتیں بھی زبان زدِ عام ہیں۔ لبیک سے البیک تک کا یہ سفر دراصل مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو عالمِ اسلام کے اس مرکزی شہر مکہ معظمہ میں ایک اہم مقام دے چکا ہے۔ خاص طور پر، حجِ بیت اللہ کے موقع پر حلال مغربی کھانے، مجموعی ماحول پر ایک مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ مغرب کی فضائوں میں پلنے والی نوجوان مسلمان نسل سے ہمیں بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ مسلمان تو مسلم ممالک میں بے شمار مل جائیں گے لیکن اسلام آپکو مغرب کے غیر مسلم ممالک میں زیادہ ملے گا۔ اب اگر مغرب میں مسلمانوں کی تعداد بھی خاطر خواہ انداز میں بڑھ جائے تو اس دنیا کا مستقبل یقینا بہت بہتر ہو جائے گا۔
غزہ میں اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کی انتہا کے بعد، KFC جیسے امریکی برانڈز کے مقابلے میں البیک کی سپورٹ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ مغرب میں رہنے والے مسلمان، غزہ کے مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ساری کمپنیوں کا بائیکاٹ کئیے ہوئے ہیں۔ بہت سارے غیر مسلم بھی اس کارِ خیر میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔خوابِ مشرق اور سحرِ مغرب کے تناظر میں، علامہ اقبال نے بھی اپنے اس شعر میں مشرق کے ساتھ ساتھ مغرب کو مساوی اہمیت دی ہے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ہمارا یہ سفرِ حج ایک ایسے گروپ کے ساتھ گزر رہا ہے جو امریکہ اور یورپ میں رہنے والے ان مسلمانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے پچھلے پچیس تیس سال مغربی ممالک میں گزارے ہیں اور اب اپنی فیملیز کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے ہیں۔ موسم کی شدت کے باوجود، اس گروپ کی مناسکِ حج میں گہری دلچسپی دیکھ کر محسوس ہو رھا ہے کہ مستقبل میں، مغربی ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ان شااللہ۔اُمتِ مسلمہ کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے حجاج کافی متفکر نظر آتے رہے بلکہ ان کی گفتگوں سے مایوسی کے سائے بھی واضح تھے۔ ایسے میں اجمل اجملی صاحب کے یہ دو اشعار حاضرِ خدمت ہیں۔
دو پل کے ہیں یہ سب مہ و اختر نہ بھولنا
سورج غروب ہونے کا منظر نہ بھولنا
کتنی طویل کیوں نہ ہو باطل کی زندگی
ہر رات کی ہے صبح مقدر نہ بھولنا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here