قارئین وطن!
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
آج وطن عزیز کی آزادی کو سال ہونے کو ہوتے ہیں لیکن ساحل کا کنارہ ابھی تک نظر نہیں آ رہا قائد اعظم سے چلے شہید ملت لیاقت علی خان کا قتل دیکھا ان سالوں میں بہت کچھ دیکھا سال مارشل لا کا دیکھا باقی ان ڈائیریکٹ ماشل لا کو دیکھ رہے ہیں اسی طرح عدلیہ کے نظام کو دیکھ رہے ہیں ان سالوں میں جسٹس سر عبدل رشید ، جسٹس کیکاس ، جسٹس کیانی ، جسٹس اے آر کارنیلئس ، جسٹس حمود ار رحمان ، بھگوان داس یہ گنتی کے آپ رائیٹ ججوں کے علاوہ کوئی اور ہے تو میرا کمزور حافظہ اس کا احاطہ نہیں کر سکتا ان کے بعد جو بھی آیا ماشل لا کا غلام آیا یہ بدمعاش اور لٹیرے حکمرارانوں کا زر خرید نوکر اس اثنا میں جسٹس منیر نے عدلیہ کی تباہی کی پہلی اینٹ رکھی اس دوران آٹے میں نمک کے برابر کچھ انصاف پسند آئے لیکن وہ کوئی خاطر خواہ نام پیدا نہیں کر سکے سال گزرتے گئے عوام انصاف کے مندر کی طرف یتیم اور بے سہارا بچوں کی طرف دیکھتی رہی پھر اچانک چوہدری افتخار رانا روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا ہم سب نے یہ جانا کہ نظام عدل بدل گیا ہے اس نے ایک مارشل لا ڈیکٹیٹر جرنل پرویز مشرف کے اسرار کے باوجود استعفی پر دستخط (No) کہ کر انکار کر دیا ہے پاکستان کی مایہ ناز وکلا برادری نے کروٹ لی اور اس کے پیچھے کھڑی ہو گئی بیرسٹر اعتزاز احسن، شیر پاکستان علی احمد کرد اور کراچی سے ملک نے رانا افتخار چوہدری کے (No) کو آسمان کی بلندیوں تک لے گئے نیو یارک میں افتخار کی برادری سے تعلق رکھنے والے رانا رمضان اور شاہد مہر نے اس کا علم بلند کیا خادم نے جب اس سے ہاتھ ملایا تو ایسے محسوس ہوا کے جیسے انصاف کے کسی پیغمبر سے ہاتھ ملا رہا ہوں بعد میں جب عقدہ کھلا کے نو اس نے نہیں جرنل کیانی نے اپنے ہاتھ پر لکھ کر دیا اور اسکے حق میں نکلنے والی وکلا کی بڑی بڑی ریلیوں کو سی آئی اے ، نواز شریف اور جرنل کیانی نے اسپانسر کیا تھا جرنل مشرف سے جان چھڑانے کے لئے افتخار جب واپس چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہوا تو جو اس نے انصاف کے مندر میں انصاف کو روند دیا اور آج جو کچھ اعلی عدلیہ سے لے کر سب سے چھوٹی عدالت تک جو کیچڑ پھیلا ہوا ہے یہ سب ہمارے محترم افتخار احمد رانا کی دین ہے جس کو ہم انصاف کا جگنو سمجھے تھے وہ انصاف کا بچھو نکلا۔
قارئین وطن! آج کے دن تک پاکستان کے مجبور عوام کو ساحل کاکنارہ نظر نہیں آ رہا اور ہمارا انصاف کا گھر قاضی عیسی کے ہونہار فرزند جسٹس فائیز عیسی کی وجہ سے انتہائی گندگی میں ڈوب گئی ہے عدلیہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغض سے بھرا چیف جسٹس جو انصاف کی کرسی پر نہیں بلکہ ایک سیاسی کارپوریشن ن لیگ اور اس کے مالک نواز شریف کا ذاتی ملازم لگ رہا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کی شکائیت پر اس کے کان بند ہیں الیکشن کمیشن کی انتہائی بے ضابطگیوں کے باوجود ابھی تک آنکھیں اور کان بند ہیں کہ نواز کے ساتھ ہونے والا لندن معاہدہ طشت از بام نہ ہو جائے اور خاص لوگ اس کی بھی غیر ممنوحہ تصویریں باہر لے آئیں سالوں بعد بھی اگر ہم اپنا عدلیہ کا نظام نہیں ٹھیک کر سکے تو آنے والی نسلوں کو کیا دے کر جائیں گے بقول فیض چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہی آئی اس وقت وکلا برادری کو خیبر سے کراچی تک متحد ہو کر آئین پاکستان اور عدلیہ کی آزادی کے لئے ایک ہو جائیں۔
قارئین وطن! ہمارے چیف جسٹس قاضی صاحب اپنے مالکان نواز ، شہباز، آصف زرداری اور سوٹی اور سلوٹ کی ایک شخص کی نفرت عمران خان کے خوف کے خلاف سر جوڑے بیٹھیں ہیں ہم عوام جن کے پیروں میں انقلاب کے لئے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے جو بجلی کے بل کے خلاف بھی آواز نہیں اٹھا سکتے تو بس پھر اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کریں کہ قاضی کے سائے میں بیٹھے ہوئے اطہر من اللہ اور برادر ججوں کو غیرت آ جائے کہ بلآخر ان کی بھی نسلوں نے بھی یہیں جوان ہونا ہے ۔ میری گزارش ہے امریکہ میں وکلا کے نمائیندے شاہد مہر صاحب سے کہ اپنے پاکستان بار کونسل اور دوسری باروں کے صدور سے اپنے تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کے لئے باہر نکل آہیں اور عدلیہ جب ہی آزاد ہو گی جب قاضی فائیز عیسی جیسے بوجھ کو باہر پھینکا جائے آئیے ہاتھ آٹھائیں اپنے رب کے حضور کہ اب نجات دیدہ و دل کی گھڑی آنی چاہئے سال بڑے ہوتے ہیں ۔
٭٭٭