آج کا المیہ

0
118
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

آج کا المیہ ہے کہ ہر خبر سوشل میڈیا پرہے مگر سوشل میڈیا کو آباد کرنے والے کون ہیں۔کوئی جنات تو نہیں ہم سب ہیں ،صرف سوشل میڈیا ہمارے جذبات کو ہوا دے کر بریکنگ نیوز بنا دیتا ہے۔آپ جدھر بھی نگاہ اُٹھائیں طبیعت ہوا ہوجاتی ہے۔ٹی وی کھولیں، نیوز دیکھیں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔روٹی کے لئے ترس رہے ہیں ۔بلوں کے لئے پریشان ہیں مگر سیاسی لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔فائیوسٹار ہوٹلوں میں غریبوں کے غم میں دعوتیں اُڑا رہے ہیں ،حکومت آج گئی کل گئی چند دنوں کی مہمان ہے۔گرتی دیوار کو ایک دھکہ اور دو، اندر پاکستان کے صدر مملکت تقریر کر رہے ہیں۔اندر اپوزیشن واک آئوٹ کرکے باہر نکل آئی ہے۔نیوز میڈیا، پرنٹ میڈیا ، ٹی وی چینل کے حضرات دھرنا دیئے ہوئے تھے۔کیا ان تمام اقدامات سے غریبوں کی روٹی کا مسئلہ حل ہوگیا؟ہرگز نہیں، عام چینل لگائیںتو بھابی دیور سے عشق کر رہی ہے، جیٹھ کی نگاہیں بھائی کی بیوی پر جمی ہیں۔بیوی کسی کی ہے عشق کسی اور سے کر رہی ہے۔ایک آدمی بغیر کسی لالچ کے کسی لڑکی کو تحفظ دے رہا ہے۔دراصل اسے اس لڑکی سے پرانا عشق ہے۔عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر دن رات اس کو بچانے میں لگا ہوا ہے۔سسر کو اپنی بہو کے ساتھ عشق فرماتے ہوئے دکھا رہے ہیں۔عورتوں کو اپنے خاوندوں کے منہ پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے دکھا رہے ہیں۔کہیں ہاتھ جوڑے معافی مانگتے ہوئے دکھا رہے ہیں ۔ مخلوق خدا کے مسائل ان ڈراموں سے بڑھ رہے ہیںیا ختم ہو رہے ہیں۔ مسجدوں کا رخ کریں تو منبر پر خطیب کم اور واعظ زیادہ براجمان ہیں ان کا کام لوگوں کی جیبیں کھلوانا ہے اور مذہبی لوٹ مار کرنی ہے۔ظاہر ہے جب خوش آواز جاہل واعظ منبر پر بیٹھائیں گے۔تو وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی چھتری میں موجودہ دورکے عیاش اور رسہ گیر سادات کو دنیا سے افضل بتائے گا جو ان کے بارے بات کریگا۔اسے فی الفور جہنم کا سرٹیفکیٹ دے دیگا۔جبکہ قرآن مجید نے پہلے فیصلے کردیئے ہیں۔اگر نبی کا بیٹا بھی گندے کا موں میں ملوث ہوگا تو ”اندیس من اھلک”کا تازیانہ موجود ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کا عہدہ ملا تو عرض کی مولا میری اولاد کو بھی ملے گا فرمایا””لانیال عھد الظلمین”ظالموں کے لئے کوئی وعدہ نہیں۔ میرے والدین جن بزرگوں کے مرید تھے وہ مادرزاد ولی تھے۔ان کے بعد ان کا بیٹا جانشین ہوا ،خانقاہ تباہ ہوگئی۔ایک مرتبہ میرا جانا ہوا پوچھا پیر صاحب کہاں ہیں لوگوں نے بتایا کتے لے کر شکار کھیلنے گئے ہیں۔مسجد اور مدرسے بے آباد، دھول اُڑ رہی تھی حالانکہ وہ سید تھے۔آج جدھر نگاہ اُٹھائیں مخلوق خدا کا کوئی والی وارث نہیں ،ہر کوئی اپنی اپنی پروجیکشن کر رہا ہے اور جیبیں بھر رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here