پاکستان میں نئی صحافتی پابندیاں!

0
115
پیر مکرم الحق

پاکستان میں صحافتی پابندیوں کی تاریخ کوئی نئی نہیں، جنرل ایوب خان کے مارشل لا سے صحافتی پابندیوں کا آغاز ہوا تھا اور پھر مختلف مارشل لائوں میں یہ رحجان بڑھتا گیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جمہوری اور منتخب حکومتوں نے بھی اس غلیظ عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاحالانکہ دیکھا جائے تو صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور یہ بات1787ء میں ایڈمنڈ بروک نے برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہی تھی۔جمہوریت کے اس سے پہلے فقط تین ستونوں کی بات کی جاتی تھی جوکہ آئین ساز ادارے انتظامیہ اور عدلیہ پر محیط تھے۔دوسرے الفاظ میں پارلیمنٹ ،منتخب حکومت اور عدلیہ لیکن1787ء میں برطانوی رکن پارلیمنٹ ایڈمنڈ بروک کی کہی ہوئی بات ایسی مقبول ہوئی کہ جمہوری انداز گفتگو میں صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستونFOURTHPILLERتسلیم کرلیا گیا۔صحافت کا کام مندرجہ بالا تین اداروں کی غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنا اور عوام کو آگاہ رکھنا ہوگا۔پریس کی آزادی کو آگے چل کر یعنی1791میں امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے ذریعے، اظہار رائے کی آزادی کے ذریعے، کسی سرکاری دبائو یا دخل اندازی کے خلاف تحفظ دیا گیا۔امریکی آئین کی پہلی دس ترامیم میں سب سے پہلی ترمیم”اظہار رائے کی آزادی ”FREEDOM OF EXPRESSION”کہلاتی ہے۔اس ترمیم کا دائرہ کافی وسیع ہے جس میں مذہبی آزادی اور سیاسی آزادی بھی شامل ہے۔کسی بھی انجمن یا سیاسی جماعت سے وابستگی کی آزادی کو بھی آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔آمریت کے سائے میں پرورش پانے والی ریاستوں میں ایسی ترامیم یا ایسے قوانین کی اہمیت کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے جہاں پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو راتوں رات اُٹھا کر عقوبت خانوں میں مقید کرنے میں ارباب واختیار کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور منصف بزدلی کا مظاہرہ کرکے خاموش رہتے ایسے ملکوں کے سفارت خانے جو جمال خاشقجی کے لئے قصاب گھر بنا دیئے جاتے ہیں۔نام نہاد آزاد ریاستیں پھر بھی خاموش رہتی ہیں جب جمال خاشقجی کے ٹکڑے ٹکڑے کر پھینک دیا جاتاہے۔پاکستان بھی صحافیوں اور قتل میں پیچھے نہیں رہالیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کے مقابلے میں برطانیہ اور امریکہ کے بہترین اداروں سے تعلیم حاصل کرنے اور رہائش اختیار کرنے کے بعد پاکستان میں سیاست کا آغاز کرنے والے عالمی کرکٹ کے ہیرو وزیراعظم جو کہ وزیراعظم بننے سے پہلے پریس کی آزادی کا چیئرمین تھے اس کی حکومت میں عالمی صحافتی آزادی کی رینکنگ میں پچھلی حکومت کی رینکنگ139سے مزید خراب ہوکر صحافتی آزادی میں145کو پہنچ گئی ہے جبکہ دنیا بھر میں اس فہرست میں کل180ممالک موجود ہیں اور یہ رینکنگ مرتب دینے والے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ صحافیوں پر جھوٹا مقدمہ کرنے کے ساتھ اشتہارات کو بند کرکے اخباری اداروں کو سزا دینے یا بلیک میل کرکے صحافیوں کی آواز دبانے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے، سکیورٹی اداروںکے ذریعے صحافیوں کو حراساں کرنے کے واقعات میں بھی تیزی آگئی ہے۔2019,2020میں پاکستان کی رینکنگ142تھی جواب145کو پہنچ گئی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت سچ کو دبانے کیلئے جو بے انصافی کر رہی ہے اس پر ساری دنیا حیران ہے اس معاملے میں ن لیگ اور پی پی پی پھر بھی بہتر رہے ہیں۔
12ستمبر2021کو اسلام آباد میں صحافتی نمائندگان کی سب سے بڑی تنظیم PFUJپاکستان فیڈریشن آف جنرلسٹ یونین کی کال پر اسلام آباد میں سب سے بڑا احتجاجی جلسہ ہوا ہے جس میں حکومت کی طرف سے صحافتی آزادی پر قدغن لگانے کیلئے کالے قوانین کی تشکیل کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔صحافی برادری نے صحافیوں کو تقسیم کرکے مختلف دھڑوں میں بانٹنے کی گھنائونی سازش کو بھی ہدف تنقید بنایا اور اس کوشش کو صحافیوں میںPATRIOTمیر جعفر اور میر صادق(غدار) کے عمل کی مذمت کی ہے اور ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔نام نہاد انصاف کی حکومت نے اظہار رائے کی آزادی کو ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے۔اس کے بعد عام انتخابات میں اب عوام سے یہ توقع ہرگز نہ رکھے کہ عوام انہیں منتخب کرنے کی غلطی دوبارہ کریگی۔آخر صحافیوں کی کیا غلطی ہے کہ وہ عوام کی تکالیف اور مشکلات سے حکومت کو آگاہ کر رہے ہیں۔مہنگائی اور بدعنوانی کی عفریت عوام کو نگلنے پر تلی ہوئی ہے اور وزیراعظم ہیں کہ اپنی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنے پر اسرار کرتے جارہے ہیں،خان صاحب زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو!!!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here