گالیاں اور گولیاں!!!

0
74
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

چرچل نے کہا تھا ڈاکوئوں کی آخری آرام گاہ سیاست ہے۔اسے ہم ڈکٹیٹرز ، مجرموں، لٹیروں اور ظالموں کی پردہ پوشیوں میں دیکھ رہے ہیںجن کا بس چلتا ہے وہ گولیاں برسا رہے ہیںاور جو قانون کے ہاتھوں بے بس ہیں وہ گالیاں برسا رہے ہیں۔ فلسطین میں اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے۔ بیگناہ قتل ہو رہے ہیں۔ پارہ چنار میں بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا ہے ۔ آجکل کچھ ایسے ہی مشکوک کردار مذہبی لیڈر بن کر اپنے تعصب کو خوشبودار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں ایک لمحہ میسر نہیں کہ مظلوموں کی حمایت میں لکھیں۔ انہوں نے شرفا کی پگڑیاں اُچھالنی ہیں ۔ ان کے پاس نہ نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے ، نہ قرآن کا ۔ مساجد و مراکز کی مخالفت کرنا ، علما و شرفا پر کیچڑ اچھالنا، دین کے خدمت گزاروں کو مورد طعن و تشنیع قرار دینا۔کذب بیانیوں سے زمینوں و آسمان کے قلابے ملا دینا۔الزام تراشیوں سے اپنی قبروں کو انگاروں سے بھرنااور ناموس کی گالیوں سے خود کو روئے زمین پر چلتا پھرتا جہنمی ثابت کرنا۔ان کے ماتھے کا جھومر شمار ہوتے ہیں۔ان کے پاس ہائی جیئن کا وقت نہیں ہوتا۔لباس بدلنے سے عاری ہوتے ہیں۔بسیار خوری ان کی عادت ثانویہ ہوتی ہے۔ غبیت و تہمت ان کی شناخت ہوتی ہے۔حسد و بغض ان کے امتیازی نشان ہوتے ہیں ۔جہالت مرکب ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتاہے۔ غرور و تکبر سے اٹے ہوئے ۔تعصب و عناد میں بٹے ہوئے ۔پاک دامنوں سے کٹے ہوئے ۔ سبیل حق سے ہٹے ہوئے۔شرافت سے چھٹے ہوئے۔کسی محفل میں چلے جائیں تو گھنٹوں ان کا تعفن مشام انسانیت کو مات کر دیتا ہے۔ظلم و استبداد کی حمایت ان پر لعنتوں کی برسات کر دیتی ہے۔انہیں نہ اللہ اور رسول کا ڈر ہوتا ہے۔نہ ہی چھوٹے بڑے کا حیا،اپنی بگڑی ہوئی اولادوں سے غافل ،دوسروں کی سنوری ہوئی اولادوں پر تنقید ان کا وطیرہ حیات ہوتا ہے۔تو تڑاک کی ذہنیت ، ابے تبے کی جبلت ، زبان درازی کی عادت، قطع کلامی کا شوق،بدزبانی کا ذوق انہیں انسانی اقدار سے نکال کر جانوروں بلکہ درندوں جیسا بنا دیتا ہے۔منافقت ایسی کہ ابن ابی شرما جائے،باتونی ایسے کہ کوا منہ چھپائے۔چالاک ایسے کہ لومڑی شرمائے،جابر ایسے کہ فرعون منہ چھپائے۔بخیل ایسے کہ قارون بھاگ جائے۔دنیادار ایسے کہ شداد نہ ٹکنے پائے ۔جھوٹی اڑانوں کے شوقین کہ ھامان پچھتائے۔ان کی منافقتوں کے سامنے ابلیس بھی ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے۔ایسے لوگ اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے خود پر مذہبی لیڈر کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ کبھی جعلی سید بن کر ، کبھی جعلی اسکالر بن کر ، کبھی دو نمبر کے لیڈر بن کر ، زمانے کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔پیچارے یہ نہیں سمجھتے بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی اور کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھے گی۔ اس مالک لم یزل کا شکریہ کہ جو اپنے سچے نمائیندوں کے ماننے والوں کو ایسے نمرود صفتوں سے محفوظ و مصون مامون رکھتا ہے۔اور دھوکہ بازوں کے مکر و فریب کو واضح واشکار فرماتا ہے۔ باقی آئیندہ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here