یہودیت تو نہ اپنا!!!

0
21
شبیر گُل

غزہ لہو لہو،فلسطینی بچے ملبوں کے ڈھیر تلے دفن، انسانی تاریخ کے بھیانک اور المناک مناظر، اسرائیلی اور امریکہ کی وحشت وبربرئیت جاری۔ مسلم ممالک کی اسی لاکھ فورس بزدلی کی انتہا پر۔ اسلام کا قعل پاکستان عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اپنے آقائوں کے سامنے بھیگی بلی۔ عرب اقوام خاموش تماشائی۔ عالمی ضمیر مر چکا۔ انسانیت کو شیطانیت کا ننگا ناچ ناچنے والے نگل گئے۔ ہیومن رائٹس کے چیمپئنز کی نظر میں میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کے مقابلہ میں جانور کی اہمیت۔ ہمارے جرنیل اپنی بہو بیٹیاں اٹھانے میں مصروف۔ کیونکہ ان بے شرموں نے ریٹائرمنٹ کے بعد آپنے آقائوں کے ملک میں رہنا ہے۔ میں پوچھتا ہونا ان جرنیلوں کی کیا آپکی کوئی ماں بہن نہیں ہے کیا۔ ؟ انکی بھی کوئی غیرت ہے کیا۔ ؟ ان کے اندر اتنا گندہ خون کیوںہے؟۔ جب بات بہنوں کو اٹھانے تک پہنچ جائے تو سمجھئے کہ من حیث القوم ہماری غیرت مرچکی ہے۔ پولیس کے منہ کو حرام لگ گیا ہے۔ پولیس کا کردار طوائفوں جیسا ہے۔ اپنی ہی بہنوں پر ہاتھ ڈالنا کہاں کی غیرت مندی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے سلیپنگ سیل ہیں۔ ان سے آنکھیں چرا کر چادر اور چار دیوار پامال کی جارہی ہے۔ میانوالی میں دہشت گرد بیس میں گھس جاتے ہیں۔ جوانوں کو شہید کرتے ہیں۔ جیٹ فائٹرز کو نقصان پہنچآتے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کو کھلا چیلنج دیتے ہیں۔ ایسے ہی بلوچستان میں دہشت گرد چودہ فوجی جوانوں پر دھاک لگا کر حملہ کرتے ہیں۔ چودہ آرمی جوان شہید کردئیے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے۔ سیکورٹی ادارے اپنی ذمہ داریاں کہیں اور نبھا رہے رہیں۔ افسوس ہے کہ سیکورٹی ادارے اور پولیس چادر اور چار دیواری کو پامال کررہے ہیں۔ نوجوان بچیوں کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ دنیا میں کونسا قانوان ہے کہ آدھی رات کو گھروں سے عورتوں کو اٹھا لے جا۔ کسی مہذب معاشرہ میں ایسا نہیں ہوتا چونکہ عدالتیں اس حرامزدگی کو سپورٹ کرتی ہیں اسلئے عوام کو قانون کے رکئوالوں سے نفرت ہے۔ کیونکہ عوام کو تخفظ فراہم کرنے کی بجائے ظلم کرنے والوں کو ملکر نشان عبرت بنانا چاہئے۔ کیونکہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ عوام کو چاہئے کہ جب کوئی پولیس کے لوگ ایسا واقعہ کریں اس چوکی کا گھرا کریں چوکی کو پولیس سمیت تیل چھڑک کر آگ لگا دیں۔ انہیں زندہ جلا دیں انہیں زندہ بھون دیں۔ خدا کی قسم دو،تین یا چار تھانے جلائینگی تو پولیس اس بے غیرتی کو ختم کردے گی۔ یا پھر سول سوسائٹی مل کو ڈی ہائوس۔ ایس پی ہائوس ، وزیراعلی ہائوس کا رخ کریں۔ انہیں تیل چھڑ ک کر آگ لگائیں یا انکی بہو بیٹیوں کو اٹھا لینا تاکہ انہیں احساس ہو کہ بہو بیٹوں کی عزت کیا ہوتی ہے۔ enough is enough . میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مجھے کسی بیٹی کی عزت ایسے ہی عزیز ہے۔ جیسے مجھے میری بیٹی کی عزت عزیز ہے۔ شہباز شریف، نقوی ، رانا ثنا اللہ بے شرم بے حیا اور غیرت سے عاری لوگ ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ ظالم کو اللہ جلد یا بدیر انجام تک ضرور پہنچاتا ہے۔ یہ حرام النسل ہیں جنہوں یہودی روئیے اپنا لئے ہیں۔ جیسے اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و بربرئیت ڈھا رہا ہے۔ ویسے ہی جرنیل پاکستان میں اپنے عوام، میڈیا اور سیاسی کارکنان کی آوازیں بند کررہے ہیں۔ جسے امریکہ کی مدد حاصل ہووہ دھڑے سے اقوام متحدہ کی قرار پھاڑ دیتا ہے۔ ایٹم بم مارنے کی دھمکی دیتا ہے۔ جس پر پوری مغربی دنیا خاموش ہے۔ اگر یہی بیان ایران یا پاکستان کی طرف دے آتا تو ابھی تک ان پر بین الاقوامی پابندیوں کا اطلاق ہوچکا ئوتا۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور یورپ کا منافقانہ اور دہرا معیار آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان میں امریکی پالتو بے لگام ہو چکے ہیں۔ کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب عدالتیں رنڈی خانے بن جائیں تو عوام میں اشتعال نو مئی کے واقعات جنم دیتاہے ۔ ملک پر چوروں اور ڈاکوں کا ایکبار پھر جمگٹھا ہے۔ کبھی اسمبلی کے فلور پر کسی نے پوچھا ہے کہ جناب ایم این صاحب ، سینٹر صاحب یا ایم پی اے صاحب آپکے پاس اچانک اربوںں روپیہ کہاں سے آگیا۔ کیا کوئی نہیں پوچھے گا ان سے۔ پوچھنے والے خود ڈاکو ہیں۔ ایسے ہی چئوٹی چئوٹی مساجد کے علما ہیں جو خالی برتن کی طرح کھڑکتے ہیں۔ منبر رسول پر بیجا چیختے چلاتے ہیں۔ سادگی کا درس دیتے ہیں کڑوڑوں کی گاڑی اور کئی کئی گن مینوں کے ساتھ گئومتے ہیں۔ انکے پاس حرام کا اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے کہ انکا لائف سٹائل شاہانہ ہے۔ ایسے ہی امریکہ اور یورپ میں کبھی کسی نے پوچھاہے کہ مولانا آپکی تنخواہ تین ہزار ڈالر ہے۔ آپکے پاس لگثری گاڑی اور اتنا بڑا گھر کہاں سے آیا۔ آپکی تنخواہ تین ہزارہے لیکن آپکا خرچہ دس سے پندرہ ہزار ہے وہ آپکے پاس میاں سے آتا ہے۔ خرامخوری کرکے واعظ نصیحت کا عوام کی صحت پر کوئی اثر نہیں ئوتا۔ کیونکہ مولوی حضرات اپنی ذمہ داریوں سے کوسوں دور ہیں۔ معاشرہ سسک رہا ہے۔ غریب تڑپ رہا ہے۔ بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔ ڈکیٹسں بڑھ گئی ہیں۔ عوام عدم تخفظ کا شکار ہیں۔ نوجوان نسل فرسٹریشن کا شکار ہے۔ ظلم کا بازار گرم ہے۔ دہشتگردی نے سر اٹھا لیاہے۔ پولیس اور جرنیلوں نے معاشرہ کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ ایک بھی غیرت مند جرنیل جو سسٹم کے خلاف بغاوت کرسکے ایک بھی ایسا جج نہیں جو عام آدمی کو انصاف گراہم کرسکے۔ تو پھرایسے حالات میں فوج کے خلاف نفرت بڑھتی ہے۔ پولیس کی سکھا شاہی کے خلاف لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پیٹ سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کا ایک بھی لیڈر یا رہنما ایسا نہیں جس کی تجوری میں ناجائز ذرائع سے حرام مال آتاہو۔ جماعت اسلامی کا علاوہ کوئی جماعت نہیں جو عوام کی حقیقی مندوں میں خدمت کرتی ہو۔ تو پھر قوم کو اُلٹی موت کیوں پڑی ہے۔ وہ کرپٹ، بدعنوان۔ حرامخور بدمعاشوں کو لیڈر چنتی ہے۔ قارئین قوم کو بھی چاہئے کہ اپنے ضمیر کو غیرت دلائیں۔ اپنی امانتیں اہل افراد کے سپرد کریں تاکہ ملک کا سسٹم قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرسکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here