اک معمہ ہے سمجھنے کا …نہ سمجھانئے کا!!!

0
59
جاوید رانا

قارئین کرام! گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے (سعادت عمرہ سے واپسی کے بعد) پاکستان میں ہوں اور احباب، رشتہ داروں اور مختلف صحافتی، سیاسی، ملکی و خارجی امور کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ چاہنے والوں کی دعوتیں ہوں یا واقفان حال سے ملاقاتیں، موضوع بحث موجودہ سیاسی صورتحال اور متوقع الیکشن ہی رہے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد میں چند روز ہی رہ گئے ہیں لیکن صورتحال میں شک و شُبہ ہے کہ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں، آیا انتخابات کی یہ بیل منڈھے چڑھے گی اور اگر الیکشن ہو بھی گئے تو اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان اور حکومت سروائیو کر سکے گی یا حالات کسی اور رُخ پر جائینگے، ہمارے ایک پُرانے دوست جو حالیہ ریاست کی لاڈلی جماعت سے وابستہ ہیں اور کئی بار رکن قومی اسمبلی رہے ہیں، اس بار امیدوار نہیں ہیں۔ ہم نے ان سے وجہ پوچھی تو ان کے جواب نے ہمارے اس مؤقف کو تقویت بخشی کہ اگر الیکشن ہو بھی گئے تو اسمبلیوں اور حکومتوں کی معیاد مختصر ہی ہوگی، کوئی بھی انہونی ہونے کا خدشہ اور خوف اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کراچی سے خیبر تک لوگوں نے آٹا، چینی، اجناس اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کا ذخیرہ کر لیا ہے کہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں وہ دو وقت کی خوراک اور ضروریات کے قابل ہو سکیں۔
الیکشن سے آٹھ روز قبل وطن عزیز جس سیاسی صورتحال سے گزر رہا ہے اور جس طرح کے ریاستی، انتظامی و عدالتی روئیے اور اقدامات سامنے آرہے ہیں، فانی بدایوانی کا شعر اس کی عکاسی ہے کہ!
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے کھیل ہے دیوانے کا
اس وقت عمران اور پی ٹی آئی کو دبانے، کچلنے اور مائنس کرنے کا جو کھیل ریاستی و انتظامی اداروں کی جانب سے کھیلا جا رہا ہے وہ کسی بھی طرز پر لیول پلیئنگ فیلڈ کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایک جانب سائفر کے کیس میں عمران و شاہ محمود کے وکلاء کے انتخابی و پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث عدم حاضری پر سرکاری وکیلوں کی نامزدگی اور احتجاج پر دفاع کا حق ختم کرنے متعلقہ جج کا فیصلہ تو دوسری جانب راتوں رات سائفر کیس میں دفعہ 342 کے تحت عمران خان و شاہ محمود قریشی کو 36 سوالات پر مشتمل سوالنامہ کے جوابات صبح 9 بجے داخل کرنے کا اقدام کیا اس امر کا اظہار نہیں تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے مطابق عمران اور شاہ کو 8 فروری سے قبل فیصلہ سنا کر نا اہلی و سزاء کے ذریعے الیکشن سے محروم کر دیا جائے ۔اور وہی ہوا کہ جج صاحب نے یکطرفہ کارروائی کرکے10سال قید اور5سال کی نااہلی کا فیصلہ سنا دیا۔لیکن کیا یہ عمران، پی ٹی آئی کے علاوہ عوام کے حق سے نا انصافی زیادتی اور ظلم نہیں ہوگا جو عمران کی ایک کال پر کپتان سے اظہار یکجہتی اور حمایت کیلئے کراچی سے پختونخواہ تک سڑکوں پر نکل آئے۔ ظلم تو کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں عوام پر تشدد کر کے پولیس اور انتظامیہ نے بھی کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح نام نہاد الیکشن کروا کے وطن عزیز استحکام و سکون کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ ایک کالم میں واضح کیا تھا کہ الیکشن میں شامل سیاسی جماعتوں نے بالخصوص ریاست کی لاڈلی ن لیگ نے نہ کوئی جلسے کئے ہیں نہ ریلی نکالی ہے اور نہ منشور دیا ہے۔ اب ن لیگ کا منشور، ”پاکستان کو نواز دو” کے عنوان سے آیا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے عنوان ”نواز کو پاکستان دو” ہونا چاہیے تھا کہ وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ کے دور تک نواز کو ذاتی منفعت اور خاندان کی خوشحالی کیلئے پاکستان دیا جاتا رہا ہے، کس نے دیا اور کیوں واپس لیا یہ ایک کُھلا راز ہے اور ایک بار پھر یہی منترہ اختیار کیا جا رہا ہے، اس منترے پر عمل اب مقتدرین نے عمران اور شاہ محمود قریشی کو سزائوں کے ذریعے کروا دیا ہے۔ عمران اور پی ٹی آئی پر تمام تر مظالم، سختیوں کے باوجود عوام کی کپتان سے محبت اور سپورٹ اس امر کی نشاندہی ہے کہ شفاف و منصفانہ انتخابات کی صورت میں عمران کے نامزد آزاد امیدوار ہی منتخب ہونگے۔ ہمارے تجزئیے کے مطابق فیصلہ سازوں کو ہر گز گوارا نہیں ہوگا تو اس کا مطلب ہی ہے کہ 8 فروری جھرلو ہوگا۔ اگر شفاف و منصفانہ انتخابات کرا دیئے تو لاہور میں نوازشریف، ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابل جیت سکیں گے، مریم نواز کو پی ٹی آئی کے امیدوار پر فتح حاصل ہوسکتی ہے۔خصوصاً موجودہ سچیون میں اور ایسی صورتحال میں کیا ن لیگ کا دھڑن تختہ نہیں ہو جائیگا۔ واضح رہے کہ مقتدرہ ایسا کبھی نہیں چاہے گی نتیجہ جھرلو یعنی مرضی کے مطابق ہی ہوگا۔
جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں تو ایک جانب تو سائفر کیس میں کیس کے تمام معاملات تیزی سے مکمل کر کے بغیر ڈیفنس کو سنےُ سزا سنا دی گئی ہے۔ تو دوسری جانب توشہ خانہ کیس میں دفاع کے وکلاء کا جرح کا اختیار ختم کر کے عمران کی وکیل تبدیل کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے، اعلیٰ عدالتوں سے دادرسی کہاں تک مؤثر ہوگی کہ یہ سب تو ان کی منشاء کے مطابق کیا جارہا ہے۔ جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور اس بات کیلئے تیار ہیں کہ کچھ بھی ہو، عمران کو انجام تک پہنچانا ہے خیال رہے کہ عمران کو مٹانے کی کوششیں ملک کو کہاں لے جائیں گی، عوام کا احتجاج نہ صرف ملکی استحکام کو گزند پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے بلکہ انتخابات کی تنسیخ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ کیا اصل حکمرانوں کو اس کا ادراک نہیں یا پھر یہ سب اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ نہ جمہوریت رہے اور نہ جمہور کی رائے اور حالات کسی دوسری صورتحال کی جانب چلے جائیں۔ سیاسی جماعتوں کا متحارب ہونا کراچی میں ایم کیو ایم کا رکن کا قتل اور مختلف جگہوں پرسیاسی کارکنوں کے جھگڑے کیا اس امر کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ تمام یقین دہانیوں کے باوجود اول تو 8 فروری کو الیکشن نہ ہو سکیں گے اور ہوئے بھی تو شفاف و منصفانہ نہیں ہونگے ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ عمران کو کتنی ہی سزائیں دی جائیں، پی ٹی آئی کو کتنا ہی دیوار سے لگا دیا جائے۔ وطن عزیز کے سب سے بڑے اور عوام کے محبوب رہنماء عمران خان اور سب سے مقبول سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن محض ڈھکوسلا ہی ہوں گے۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اک معمہ ہے سمجھنے کا
نہ سمجھائے کاخدا بہتر جانتا ہے کہ کیا ہونا ہے
اور اس کے نتائج کیا ہونے ہیں۔
اللہ پاکستان اور عوام کو سلامت رکھے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here