کامیاب لوگ !!!

0
35
رعنا کوثر
رعنا کوثر

 

قارئین ہم میں بیشتر پاکستانی وہ ہیں جو ستر اور اسی کی دھائی میں امریکہ آئے۔ اس وقت امریکہ آنا اتنا مشکل نہ تھا۔ آسانی سے امیگریشن مل جاتا تھا مجھے یاد ہے کے میرے بھائی کو انجینئرنگ کی وجہ سے امیگریشن ملا تھا۔ اور وہ امریکہ آکر جیسے ہی سٹیزن بنے انہوں نے ہمارے لئے اپلائی کردیا مجھے عمر کم ہونے کی وجہ سے فوراً ہی جواب آگیا ہے کے آپ آکر انٹرویو دیں۔ مگر میرا دل امریکہ آنے کا نہیں چاہ رہا تھا۔ اس لئے انٹرویو بڑھوا دیا۔ دو تین دفعہ ایسا ہی ہوا مگر آخر میں انٹرویو کے لئے جانا ہی پڑا ورنہ سب کچھ کینسل ہوجاتا۔ فوراً ہی انٹرویو ہوا اور ویزا مل گیا۔ بھاری دل کے ساتھ امریکہ روانہ ہوئے کیونکہ اس وقت ویزا اور امیگریشن ملنا اتنا آسان لگا تھا کے امریکہ کی قدر ہی نہیں ہوئی۔ روزگار کی بھی بہت آسانیاں تھیں محنت کرنے والے جلد ہی نوکری شروع کردیتے اور یوں وقت کا ضیاع کیے بغیر زندگی کا سفر شروع ہوتا اور لوگ خوشحال زندگی گزارنے کے جلد قابل ہوجاتے۔ پیسے اور کھانے کی فراوانی نے آنے والوں کو اپنا ملک چھوڑنے کا دکھ بھلا دیا تھا۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں اب امریکہ آنا ایک خواب ہوگیا ہے کسی کا بھی بہن بھائی میاں بیوی اگر امیگریشن کے لئے اپلائی کریں پاکستان سے سالوں میں ان کا انٹرویو کا نمبر آتا ہے۔ بہت جدوجہد کے بعد جب امریکہ پہنچتے ہیں تو یہاں نوکری حاصل کرنے کی وہ آسانی نہیں ہے جو پہلے تھی۔ مہنگائی میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ نہ وہ آسانی ہے نہ وہ کھانے کی فراوانی ،نئے آنے والوں کی زندگی یعنی 20دو ہزار ایک کے بعد آنے والوں کی زندگی میں وہ آسانی نہیں ہے جو انہیں سو میں آنے والوں کی زندگی میں تھی۔ اس وقت آنے والوں کی اب دوسری اور تیسری جنریشن امریکہ میں موجود ہے اور اچھی بات یہ ہے کے زیادہ تر لوگوں کے بچے بہت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ اس وقت لوگوں نے اپنے بچوں پر جو محنت کی وہ آج پھل دے رہی ہے۔کوئینز اور بروکلین نیویارک میں زیادہ تر امیگرنٹس آکر آباد ہوئے۔ یہاں مدرسے اور مسجد میں بنائی گئیں۔ بچے وہاں جاتے اور پڑھتے تھے۔ ساتھ ہی سکولوں میں پڑھائی کے لئے محنت کی گئی۔ بچوں کو ڈرگ اور شراب سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے نتیجے میں آج وہی بچے اچھے مقامات پر پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک دو بیڈ روم میں رہنے والے آج بڑے بڑے گھر لیے بیٹھے ہیں۔ اعلیٰ پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ واعظ ہیں، امام ہیں، مسجدوں میں خطبہ دے رہے ہیں۔ بزنس مین، ڈاکٹر اور کمپیوٹر فیلڈ میں ہیں۔ ماں باپ کو بھی سکھ چین پہنچا رہے ہیں۔ اس کمیونٹی کو جو آپ دوسری تیسری نسل کو امریکہ میں بڑھتے پھلتے پھولتے دیکھ رہی ہے چاہیئے کے نئے آنے والوں کو صحیح راستہ دکھائیں۔ آسانیاں پیدا کریں تاکے وہ بھی خوشحال ہوں مگر میں ایسے تمام والدین کو مبارکباد دیتی ہوں جنہوں نے اپنے بچوں کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here