تمثیلہ لطیف: لطافتِ شاعری!!!

0
29
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

تمثیلہ لطیف کا تعلق راولپنڈی شہر سے ہے جس نے ادبی دنیا میں کئی نامور شخصیات پیدا کی ہیں جو آج بھی ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ میری زندگی کا بھی بیشتر حصہ اس شہرِ نگاراں میں گزرا ہے۔ تمثیلہ لطیف راولپنڈی کی ایک معروف و مقبول شاعرہ ہیں جو باوقار اور وضعدار شخصیت ہیں۔ اکثر ادبی محافل میں اِن سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ آپ نے اپنی غزلیات اور نظموں کی پی ڈی ایف بھیجی ہے اور اس پر دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ بقول میر تقی میر مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ آپ کی شاعری مستند ہے اِس پر کسی کی رائے چہ معنی دارد۔ فرمائیش کا احترام لازم۔تمثیلہ لطیف کی شاعری سلوٹیں چادر کی کا مسودہ زیبِ نظر ہوا تو احساس ہوا کہ آپ کی شاعری کلاسیکل رنگ و آہنگ کی عمدہ مثال ہے۔ زیادہ تر رومانوی رنگ غالب ہے اور کہیں کہیں انقلابی آواز ببانگِ دہل بانگِ درا کی آئینہ دار ہے۔ ایک غزل کا مطلع ہے
تو جو رکھتا ہے ہاتھ ماتھے پر
روح بے حد سکون پاتی ہے
اِس شعر پر مجھے پروین شاکر کا شعر یاد آ گیا۔ کہتی ہیں!
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیرمسیحائی کی
اسی غزل میں ایک دوسرا شعر ہے جو شاعرہ کے انقلابی مزاج کی تائید کرتا ہے۔ کہتی ہیں!
بھوک سے کیوں نہ آشنائی ہو
روز دروازہ کھٹکھٹاتی ہے
غربت و افلاس اور بھوک نے انسان سے اس کا شرفِ انسانی تک چھین لیا ہے۔ نظامِ زور و زر نے انسانوں کو حیوان بنا دیا ہے۔ اِس بدبختی پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے!
افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
تمثیلہ لطیف بنیادی طور پر محبت کی شاعرہ ہیں اور ان کے اشعار میں آتشِ فراق کی تپش دل کو خاکستر بنا دیتی ہے۔ ایک شعر میں یوں حالِ ابتدائے عشق بیان کرتی ہیں!
اذیتوں کا محبت میں کچھ شمار نہیں
کہ پہلے دن تو بڑے ابتلا کے ہوتے ہیں
ابتدائے عشق پر میر تقی میر کا ایک لاجواب شعر سنیے اور سر دھنیے۔ کہتے ہیں!
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
لسان الغیب حافظ شیرازی کا اِس ضمن میں ایک شعر حرزِ جاں جانیئے – کہتے ہیں!
الا یا ایہا الساقی ادر کاسا و ناولہا
کہ عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلھا
اس شعری مجموعہ میں چند نظمیں بھی ہیں۔ نجومی لوگ، قص کربلا، خوش نما حوالہ، کل کسے بچھڑنا ہے اور میں اس کے دل میں بڑی دلآویز اور فکر انگیز نظمیں ہیں۔ کتاب میں چند قطعات بھی ہیں جو نہایت معنی خیز ہیں۔ رومانوی رنگ میں کہا گیا ایک قطعہ ملاحظہ کیجئیے
یہ آدھے ادھورے سے تحائف بھلا کب تک!
دینا ہے اگر خواب تو تعبیر بھی لا دے
گلدان سجاتا ہے گلابوں سے جو اکثر
سنجیدہ سے ہونٹوں پہ تبسم بھی سجا دے
اس شعری مجموعے میں کئی اشعار زندگی کے مختلف تلخ و شیریں حقائق پر روشنی ڈالتے ہیں اور عمدہ شاعری کے زمرے میں آتے ہیں۔ مشتے از خروارے چند اشعار ملاحظہ
کھنچی ہوئی چلی آتی ہیں تتلیاں خود سے
کچھ ایسے معجزے دستِ حنا کے ہوتے ہیں
بہت عزیز ہے عزت مجھے قبیلے کی
تری طرح جذبات میرے بے لگام نہیں
بے سبب قید ہیں جیلوں میں مرے جتنے جواں
جشنِ آزادی پہ بھی اتنے غبارے نہیں تھے
کر نہ پائے گا تصور میں کبھی آوارگی
آ، تجھے قیدی بنا لوں زلف کی زنجیر سے
تمثیلہ لطیف کی شاعری اردو ادب میں ہوا کا ایک ایسا تازہ جھونکا ہے جو بادِ صرصر نہیں بلکہ بادِ صبا ہے جس نے چمنِ ادب میں گلِ صد رنگ نکھارے اور گیسوئے شاعری نکھارے ہیں۔ میر انیس نے ایسی شاعری کے لیے ہی کہا تھا
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here