فلسطین !!!

0
32
رمضان رانا
رمضان رانا

امریکی صدر ٹرمپ نے انتخابات جیتنے کے بعد اعلان کیا کہ غزہ کے فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں پسایا جائے تاکہ اسرائیل کے ہاتھوں معمار غزہ پر ازسر نو تعمیری کے نام پر اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کرکے یہاں دنیا بھر کے یہودیوں کو آباد کیا جائے تاکہ ان کا ساڑھے تین ہزار سالہ خواب پورا کیا جائے۔ اسی لئے اسرائیلی صہونی طاقت نے فلسطین کے غزہ کے علاقوں کو گزشتہ ڈیڑھ سال میں نیست ونابود کردیا ہے60ہزار بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو مار ڈالا۔ جس کے ہزاروں سالوں سے رہائش پذیر فلسطینی باشندوں کا قتل عام کیا ہے جس میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے جس پر مسلم دنیا خصوصا عرب دنیا خاموش بے بس یا لاپروا نظر آئی ہے۔ اسی طرح یوکرائن کی معدنیات کی لوٹ مار کے لئے منصوبہ بندی ہو رہی ہے جس کے ناچے صدر زانسکی کو بیوقوف بنایا جارہا ہے جو اپنے پڑوسی ملک اور سابقہ مالک روس کے ساتھ اچھے تعلقات کی بجائے امریکہ اور یورپ کی طرح بھاگا پھرتا نظر آرہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ روس کی نیت یورپ اور امریکہ عراق اور لیبیا کی طرح یوکرائن کی تمم معدنیاتی دولت لوٹ لیں گے جبکہ روس کو اگر یہ دولت لوٹنا ہوتی تو وہ یوکرائن کو آزاد نہ کرتا۔ جو آج قبضہ کرسکتا ہے وہ کل بھی روس کا حصہ بنائے رکھتا رہا روس اور امریکہ کی دوستی ممکن نہیں ہے روس ایک بڑی عالمی طاقت ہے جس کے پاس جدید جنگی ہتھیار بھی ہیں۔جس کا امریکہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے اس لئے یوکرائن کا اسی میں بھلا ہے کہ وہ اپنے پڑوس کے ساتھ تعلقات قائم کرکے تاکہ ہزاروں میل دور امریکہ پر انحصار کرے۔ تاہم فلسطین کی سرزمین اور یوکرائن کے وسائل پر قبضے کی منصوبہ بندی جاری ہے جس میں فلسطین کے ویسٹ بنک پر پہلے بھی امریکی یہودیوں کو لاکر آباد کیا گیا ہے جس کی آڑ میں ہر روز اسرائیل ویسٹ بنک پر حملہ آور رہتا ہے اب وہ غزہ کے مزاحمتی عوام کا خاتمہ کرکے ہزاروں سالہ کنانی سلطنت کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے جو شاید ممکن نہیں ہوگا چاہے امریکہ بھی فلسطینیوں کے خاتمے کے لئے اپنی فوج اتار دے۔ چونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم پر جنگیں مسلط کی گئی ہیں وہاں حملہ آوروں کو آخر کار شکست فاش ہوئی چاہے وہ قدیم ماضی کے قیصر وکسرا تھے۔ سابقہ خلافتیں تھیں یا پھر نو آبادیاتی نظام تھا آخر میں حملہ آوروں قابضوں ظالموں کو بھاگنا پڑا ہے جس میں گزشتہ چند دہائیوں پہلے ویٹ نام اور افغانستان ہمارے سامنے ہیں کہ دنیا کی واحد عالمی طاقت کو امریکہ اپنا سازوسامان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔ اس لئے غزہ پر قبضے کا خواب ہوسکتا ہے مگر خون میں لت پت فلسطینی قوم پر قبضہ ممکن نہیں ہوگا چاہے صہیونی اور استعماری طاقتیں جتنے چاہیں منصوبے بنالیں آج کل دور ماضی کی حکمرانی کا دور نہیں ہے کہ حکمران نے ہتھیار ڈالے تو پوری قوم نے ہتھیار ڈال دیے۔ آج کے دور جدید میں پوری عوام فوج بن چکی ہے۔ جس کو عوامی مزاحمت کاری کہا جاتا ہے جس طرح ویٹ نام اور افغانستان میں ہوا ہے کہ جنگ آزادی میں عوام شامل ہوگئے یا پھر ماضی میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف عوامی آزادی کی جنگیں لڑی گئی جس سے خوف زدہ ہوکر نوآبادیاتی نظام کی سامراجی اور استعماری طاقتیں دنیا بھر کے ممالک چھوڑ چھوڑ کر بھاگی تھیں۔ جس میں انڈونیشیا، الجزائر کے عوام قابل ستائش ہیں جنہوں نے فرانسیسی، اور ولندیزی طاقتوں کو مار بھگایا تھا اس لئے خون میں نہانے والی فلسطینی قوم کو شکست دینا ممکن نہیں ہوگا چاہے صہونی طاقتوں نے فرعونیت پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں بچوں کو شہید کیا ہے مگر فلسطینی قوم میں اسی طرح جذبہ آزادی پایا جارہا ہے جو اپنی آزادی لیے بغیر نہیں رُکے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here