سپین گئے تو الحمرا کی درو دیوار پر لکھا(کندہ) دیکھا۔ وَلاغالب اُلااَللہ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے قرآن پاک کہتا ہے انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے” یہ بھی لکھا ہے یہ دنیا دار العمل ہے”۔ کیا ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہم نے غور کیا اور جو نعرے لگاتے ہیں ” پاکستان کا مطلب کیا” شاید انہیں خود بھی نہیں معلوم کہ کیا مطلب ہے اگر معلوم ہوتا تو75سالوں میں یہ نتائج برآمد نہ ہوتے کہ برائی کوئی نہیں اور اچھائی کا نام نہیں ورنہ چند سو کرپٹ جنرلز، عدلیہ کے ججز، اشرافیہ، تاجر اور پولیس یہ کچھ نہ کرتے جو آج ہو رہا ہے، پاکستانیوں کو جاگنے کی ضرورت ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ابھی ہم کیوبا سے لوٹے ہیں جہاں امن امان ہے ،اکا دکا پولیس نظر آتی ہے ،مجال ہے آپ ویران گلیوں میں چہل قدمی کریں اور کوئی حاجت مند، بھوکا یا غریب آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے یا ہاتھ پھیلائے وہاں کوئی مذہب نہیں کمیونزم ہے اور سوشلسٹ سوسائٹی ہے لیکن آپ کو اپنے مذہب کی پریکٹس سے کوئی نہیں روکتا۔ اس کا ثبوت ہوانا میں عبداللہ مسجد ہے جہاں جمعہ کو نماز کے بعد لنگر بنتا ہے۔ ڈھائی سے تین سو افراد ہوتے ہیں ملک اللہ بخش اور طاہر خان صاحب کی رہنمائی تھی اور طے پایا اگلے جمعہ کا لنگر ہماری طرف سے ہوگا اور مسجد کی انتظامیہ کو ڈالرز دے دیئے گئے ہیں ،ہمیں خوشی تھی اس کار نیک میں شریک ہوئے اسکے علاوہ بھی کئی حاجت مندوں کی مالی معاونت بھی کی جو وہاں اسلام پھیلا رہے ہیں۔ طاہر خان صاحب کو واعظ کے لئے مدعو کیا گیا اور مترجم کی مدد سے انہوں نے وہاں کے مسلمانوں کو سراہا اور انکی دعوت کا شکریہ ادا کیا ملک اللہ بخش جو کیوبا آئے ہی وہاں کے لوگوں کی محبت میں مالی تعاون کے لئے تھے، انہوں نے اپنے ساتھ لائے اسکول کے بچوں کے لئے اسٹیشنری اور پارلے بچوں کے والدین میں تقسیم کئے یہ ایک یادگار دن تھا اور ہمیں وہاں کی تکالیف، گرمی، پسند کی غذا نہ ملنے کا کوئی غم نہیں تھا کہ وہاں کے سوا کروڑ عوام میں سے اکثریت ڈبل روٹی انڈے اور دودھ کے لئے لائن لگاتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ عوام ناشتہ کے نام سے واقف نہیں، سوائے نئے ہوانا کے۔ لیکن وہ سب مل کر خوش رہتے ہیں اور اپنے لیڈروں کی عزت کرتے ہیں کہ ان میں کوئی چور اور راشی نہیں کسی کے پاس مرسیڈیز یا لینڈروور نہیں۔ خراماں خراماں زندگی کا سفر طے کررہے ہیں، تعلیم ،علاج اور غذا کی سہولت سب کو فراہم ہے، حکومت کی طرف سے وہاں کا ڈاکٹر بھی عام بسوں میں سفر کرتا ہے اور شہر کا اعلیٰ افسر بھی ہم نے میونسپاٹی کے ایک افسر سے پوچھا جس نے ہمیں کافی پر مدعو کیا تھا۔ ” کیا یہاں سفارش یا پیسہ چلتا ہے کوئی مراعات لینے کے لئے۔” جواب میں اس نے ایسا چہرہ بنایا کہ دونوں لفظ اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ ہمارے مترجم نے دہرایا تو اس نے دونوں ہاتھوں کو کان پر لگایا اور سر کو دائیں بائیں جھٹکا دیا۔ یہاں ہمیں عمران خان یاد آیا جو اپنے مہمانوں کی تواضع چائے اور بسکٹ سے کرتا تھا اور جس کے پیچھے پاکستان کے بدنام زمانہ، سند یافتہ چور اور ڈاکو ہیں۔ پورے ہفتہ سنتے رہے عمران کو گرفتار کیا جائیگا ہمیں بچپن میں اسک مسخرے دوست کی بات یاد آئی جو آتے ہی کہتا چلو چلو اندر چلو پولیس پکڑی جارہی ہے ہم پوچھتے کون پکڑ رہا ہے جو اب دیتا چور! آج پولیس کا نام بدنام ہوچکا ہے اور اس سے زیادہ اوپر بیٹھے بے حس اور داغدار جنرلوں کا نام روشن ہے۔ اور عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے عمران خان پچھلے کئی سالوں سے ان اپاہجوں کو پڑھا رہا ہے لیکن جو لکھا ہے وہی مل رہا ہے یعنی جس کی کوشش ہے وہ ہی مل رہا ہے۔ اوراس سے آگے وہ آٹے کی لائن یا پیٹرول کی لائن میں لگے ہیں ۔
دوسری دنیاDHAمیں آباد ہے جہاں غلط پیسے کی اکثریت ہے کہ پچھلے ہفتہ ہر خبررساں ایجنسی کی خبر تھی” کہ کناڈا کی فاسٹ فوڈ کافی ڈونٹ کمپنی کی لاہور میں سب سے بڑی فرنچائز کا افتتاح ہم نے تصاویر اور ویڈیو دیکھیں کہ شرفا(ہزاروں کی تعداد) لائن میں550روپے کی کافی کے لئے کھڑے تھے جیسے پشتوں سے انکے باپ دادا کافی پیتے آئے ہیں جبکہ دوسرے ویڈیو میں ہزاروں لوگ آٹے کی لائن میں لگے ہوئے تھے۔ اور ایک اور ویڈیو میں سندھ کے کسی علاقہ میں عوام نے آٹے کی بوریاں سے لدے ٹرک پر حملہ کر دیا تھا۔ کشا تضاد تھا ان لوگوں میں جو ایک ہی ملک کے باشندے ہیں۔
امریکہ کے ایک سابقہ سیکرٹری آف ڈیفنس نے اپنی کتابCALL SIGN CHAOSمیں لکھا تھا ”پاکستان دنیا میں سب سے خطرناک ملک ہے” بہت خوب ہم بھی جانتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ باہر کی دنیا کے لئے نہیں خود وہاں کے لوگوں کے لئے ہے اس میں انکا بھی ہاتھ ہے ورنہ زرداری، نوازشریف اور ملافضل کو آشیروادانہ ملتی انکی اور دوبارہ بلکہ سہ بارہ یہ دہشت گرد سر نہ اٹھاتے پشاور اور پچھلے ہفتہ کراچی میں پولیس بلڈنگ کا محاصرہ نہ ہوتا عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ غیر قانونی رویہ نہ ہوتا الیکشن ہوتے جمہوریت کا الاپ گانے والوں کے لئے لمحہ شرمناک نہ ہوتا وہ یہ نہ کہتے پھرتے کہ عمران خان کو ٹہانے میں ہمارا ہاتھ نہیں۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے عمران دوبارہ آئے گا ہمارا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ پہلے ایک جنرل بکتا تھا اب ہر ادارے کا مختار بکا ہوا ہے۔ ہر شاخ پر الو کا پٹھا بیٹھا ہے انجام کیا ہوگا۔ عمران ادھورا کام کر چکا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ سب کو ننگا کر چکا ہے، اسے بھی چلے جانا ہے پاکستان بیرونی اشاروں پر سفر جاری رکھے گا۔ ابھی اُسے برازیل، نائیجیریا، ہیٹی، بولیویا اور سری لنکا بننے میں کچھ وقت لگے گا تب انقلاب آنے کے آثار پیدا ہونگے کہ موجودہ قوم میں آدھے۔ ٹم ہورٹن کی کافی اور ڈونٹ بلا طلب اور جس کے شوق میں پی رہے ہیں۔ بھول کر کہ انکا حساب ہونا ہے اللہ نے ظالموں کی رسی بہت ہی لمبی کر دی ہے وہ کہاوت کہ گھورے(کوڑے دان) کے دن بھی12سال بعد بدلتے ہیں، معیاد بڑھا کر سو سال کردی ہے۔ ہمارے جنرلز باہر ملکوں میں دولت جمع کر رہے ہیں انگلینڈ، امریکہ کو ضرورت ہے ایک حساس اور غریب آدمی کے لئے زندگی بوجھ ہے کاش کل کی بجائے آج ہی وہ قرآن پاک کی اس عبارت کو پڑھ لے اور عمل کرے ”انسان کے لئے وہ کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے” کوشش کو اگر آپ نے لائن میں لگنا سمجھ لیا تو زندگی بھر لائن میں لگے رہیں گے اور چور اور ڈاکو تم پر حکومت کرتے رہیں گے۔ اب ان عیاش حکمرانوں کو ہٹانے اور راج کرنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں آئے گی”اسکے بغیر انکا کام چل رہاہے”۔
٭٭٭٭