صدر مملکت ، وزیر اعظم اور دیگر ریاستی و حکومتی ذمہ داران نے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات پر مذمتی بیانات جاری کئے ہیں۔ان بیانات میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں ، انتشار پھیلانے والے ہیں، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔بیانات میں بتایا جا رہا ہے کہ شدت پسندوں سے بات نہیں ہو گی ۔یہ بھی بتایا گیا کہ قتل، تخریب کاری و دہشت گردی کے واقعات میں ٹی ٹی پی کے علاوہ بھی کچھ قوتیں ملوث ہیں۔قوم اپنی حکمران شخصیات کے دردمندانہ جذبات کو قابل قدر جانتی ہے لیکن توقع رکھتی ہے کہ صورتحال کو زیادہ سنجیدگی اور عمل کے ارادے کے ساتھ ہم آہنگ کر کے دیکھا جائے گا۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سیاسی عمل کے نقائص کا نتیجہ ہے۔سابق حکومتوں اور موجودہ حکومت نے بلوچستان کو سکیورٹی اور سی پیک کے علاوہ کسی رخ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔بلوچستان میں ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث گروہوں کو مقامی سطح پر کون مدد دے رہا ہے ،یہ مدد کس شکل میں آتی ہے اور جو غیر ملکی قوتیں اس سارے کام میں ملوث ہیں ان کے خلاف عالمی سطح پر کس فورم سے رجوع کیا گیا؟ یہ سب سوال اہم ہیں۔پاکستان کا سیاستدان مشکل اہداف تک پہنچنے کی تربیت نہیں رکھتا ۔سیاسی جھگڑے نمٹانے کے لئے وہ غیر سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔عوام خلاف ہو جائیں تو خود کو عوام کے سامنے پیش نہیں کرتا بلکہ حیلے بہانوں سے طاقت کے دوسرے مراکز سے مدد لیتا ہے۔ملک کے کسی علاقے میں لسانی، مذہبی یا نسلی و صوبائی تعصب پنپنے لگے تو سیاسی مکالمہ کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگے کر دیا جاتا ہے جو پہلے سے خراب صورتحال کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ بلوچستان برسوں سے لا پتہ افراد ، ترقیاتی منصوبوں اور سرداری جبر کے امور سے متعلق تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت کوئی مقامی بلوچ آبادی کو یہ بتا نہیں سکا کہ لاپتہ افراد ریاست کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔یہ لوگ اداروں کی تحویل میں نہیں بلکہ فراری کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شریک ہو جانا چاہئے۔سیاسی حکومتوں کی یہ غفلت سکیورٹی اداروں پر دباو کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر ایک پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے جو بین الاقوامی فورمز تک پھیل جاتا ہے۔گزشتہ سال مئی میں سیکورٹی فورسز پر ایک بڑا حملہ ہوا تھا،اس کے بعد بھی متعدد حملے ہوتے رہے لیکن حالیہ واقعاتبہت سنگین ہیں۔پنجاب کے قریب تمام شاہراہیں بند کر دی گئیں، ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا،دہشت گردوں کے آپریشن میں پھیلاو منفرد ہے، وہ تصادم کو پنجاب تک یا اس کے قریب لے جانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ماہرین کے خیال میں پاکستان کے سب سے بڑے، سب سے خوشحال اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ غالب صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں پر حملے ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہیں۔ چینی شہریوں اور صوبے میں جاری منصوبوں پر ہونے والے متعدد حملوں کی طرح، علیحدگی پسند تحریک یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ بلوچستان میں دوسرے علاقوں کے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ بلاشبہ تیل، کوئلہ، سونا، تانبا اور گیس کے وسیع قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کا سب سے غریب علاقہ ہے۔اس کے وسائل وفاقی حکومت کو خاطر خواہ ریونیو فراہم کرتے ہیں،یہاں کے لوگوں کی دیرینہ محرومیاں دور کرنے کے لئے سی پیک منصوبوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ گوادر بندر گاہ کے بعد اب گوادر ائیر پورٹ بن چکا ہے۔ زراعت کا منصوبہ شروع ہونے والا ہے۔ان منسوبوں میں بلوچ آبادی کو روزگار ملے گا، بچوں کو تعلیم ملے گی۔ صحت و تفریح کی سہولیات ہوں گی ،صوبہ معاشی خوشحالی کا مرکز بنے گا۔دہشت گرد عناصر اس ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں،وہ بلوچ عوام کو محرومیوں کا شکار رکھ کر اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ۔ صوبے میں بہت سے لوگ ریاست پر منظم طریقیسے الزام لگاتے ہیں۔ قوم پرست سونے، معدنیات اور کوئلے کی تلاش کے سخت مخالف ہیں، ان سرگرمیوں کو بلوچستان کے وسائل کے استحصال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ اکثر کوئلے کے ٹرکوں کو صوبے سے نکلنے کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں کہ مقامی آبادی کو فائدہ پہنچائے بغیر وسائل نکالے جا رہے ہیں۔ یہ بیانیہ ان کے مقصد کے لیے عوامی حمایت کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔تقریبا دو دہائیوں سے بلوچ مسلح گروہوں نے ریاست کے خلاف لڑائی جاری رکھی ہوئی ہے جو ریاست کے تحمل کی وجہ سے طویل ہوتی رہی۔بلوچستان کی صورتحال خراب ہونے کی ایک وجہ افغانستان ہے۔اگست 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے، پاکستان نے خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بد امنی میں اضافہ دیکھا ہے،دونوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔عسکریت پسند پاکستان میں کارروائی کر کے افغانستان میں روپوش ہو جاتے ہیں۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق صرف 2023 میں دہشت گردوں نے 650 سے زیادہ حملے کئے، جن میں سے 23 فیصد بلوچستان میں ہوئے، اسکے نتیجے میں 286 افراد ہلاک ہوئے۔ماہرین کے مطابق یہ مسلسل تشدد صوبے کے منفرد جغرافیے سے جڑا ہوا ہے۔بلوچستان ایک بکھری ہوئی آبادی والا بڑا علاقہ ہے۔حکومت اتنے بڑے علاقے کو فول پروف سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتی۔دہشت گردوں کے خلاف آپریشن یقینا ایک راستہ ہے لیکن سب سے اہم ضرورت مفاہمت کی ہے جس سے ملک دشمن عناصر کو قومی یکجہتی کا پیغام جائے ۔مفاہمت پر مبنی اقدامات حکومت کو خود کرنا چاہئے تاکہ سیاسی عمل کا امکان مستحکم ہو۔
٭٭٭