واشنگٹن(پاکستان نیوز) ریپبلیکن سینیٹر مارکو روبیو کو سینٹ کی طاقتور انٹیلی جنس کمیٹی کا قائم مقام چیئرمین بنایا جا رہا ہے۔ انہیں سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر میچ میکونل نے سینیٹر رچرڈ بَر کی جگہ نامزد کیا ہے۔ بَر کے خلاف اس الزام کے سلسلے میں تحقیقات ہو رہی ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس کی وبا سے ہفتوں پہلے، جس نے عالمی مالیاتی منڈیوں میں تباہی مچائی، فروری میں لاکھوں ڈالرز کے اسٹاک فروخت کرنے کے لئے قبل از وقت ملنے والی اطلاعات کو استعمال کیا۔ وہ گزشتہ ہفتے اس کے بعد اپنے عہدے سے علیحدہ ہوگئے جب ایف بی آئی نے اپنی تحقیقات کے سلسلے میں ان کے سیل فون کو ضبط کیا۔ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد روبیو اس گروپ میں شامل ہو گئے ہیں جسے ‘گینگ آف ایٹ’ کہا جاتا ہے۔ اور جس میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے اعلیٰ لیڈر اور دونوں ایوانوں کی انٹیلیجنس کمیٹیوں کے چیئرمین شامل ہوتے ہیں اور جنہیں انتہائی حساس نوعیت کے خفیہ معاملات پر بریفنگس دی جاتی ہیں۔ روبیو کی اس منصب پر فی الحال عارضی طور پر ہی سہی تقرری کو سیاسی تجزیہ کار نومبر کے صدارتی انتخاب کے پس منظر بہت معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ نامور سیاسی تجزیہ کار، جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ روبیو کا تعلق فلوریڈا کے آئی فور کوریڈور سے ہے اور وہ صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اچھے اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس کوریڈور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1992 سے جو بھی صدارتی امیدوار اس علاقے کی کاونٹیز کی اکثریت میں کامیابی حاصل کرتا ہے وہ صدارتی انتخاب میں بھی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ جہانگیر خٹک نے کہا کہ اس لحاظ سے وہ صدر کے نہ صرف اچھے اتحادی ثابت ہونگے بلکہ پارٹی کے اندر جو اختلافات ہیں انہیں طے کرانے میں بھی کردار ادا کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں اس سے نمٹنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کے لئے صدر پر جو تنقید ہورہی ہے اس سے نمٹنے اور اس دباو¿ کو ختم کرنے اور اس وضاحت میں بھی وہ صدر کے مددگار ہو سکتے ہیں کہ چین کی جانب سے حقیقت حال کو چھپانے کے سبب غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور درحقیقت سارا قصور چین کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روبیو خارجہ امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور اس حوالے سے بھی، ایسے میں جب چین اپنے دفاع میں بین الااقوامی لابنگ میں مصروف ہے، وہ اس کا سامنا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جہانگیر خٹک نے کہا ہے کہ اگر نومبر کے صدارتی انتخاب کو نظر میں رکھا جائے تو ایک اور اہم تبدیلی بھی آئی ہے، جسے ذرائع ابلاغ میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی اور وہ تبدیلی ہے پوسٹل سروس کے سربراہ کی۔