ملکی سلامتی اور استحکام کو خطرات!!!

0
61
شبیر گُل

بحیثیت قوم، بحیثیت لیڈر،بحیثیت ادارے ۔ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، ہم ستر سال سے وہیں کھڑے ہیں جہاں سے یہ ملک آزاد ہو ا تھا۔1973 کے آئین کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نا کبھی الیکشن ریفارمز ہو ئیں ، نا پولیس ریفارمز، نہ اسٹبلشمنٹ میں ریفارمز لائی گئیں اور نہ ہی اداروں کی ازسرنو تربیت کی گئی۔ جمہوری،سوشل،اکنامک، خارجہ اور داخلہ محاز پر ریاست فیل ہو چکی ہے۔ جمہوری سسٹم ڈلیور نہیں کررہا۔سسٹم فیل ہو چکا ہے۔ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس میں مسلز اور پاور شو کی جارہی ہے، لاانفورسمنٹ ایجنسیز بے بس ہیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے جمہوری سسٹم کو چیلنج کر رہاہے۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا جا رہا ہے۔ ملک میں تین مین پلیئرز ہیں۔ موجودہ صورتحال اور مشکل حالات میں تینوں مین پلئیرز کو آپس میں بیٹھنا پڑے گا۔ فوجی قیادت،عدلیہ اور سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر جمہوری ریل کو پٹری پر چڑھانا ہو گا۔ موجودہ حکومت ،پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی فیل ہو چکے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کے بار بار مداخلت سے حالات خانہ جنگی کی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کا عبوری سیٹ اپ اس قابل نہیں کہ فیئر اینڈ فری الیکشن کروا سکے۔عدلیہ اور فوجی قیادت دو حصوں میں تقسیم ہے۔ جو ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔ سیاسی قیادت کی موجودہ کشمکش سے خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ انٹیلی جنس ادارے اور ایجنسیوں کو ویڈیو بنانے اور ذاتی زندگیوں میں جھانکنے سے فرصت ملے تو دہشت گردوں پر توجہ بھی دے لیں گے ۔لوگوں کا کیا ہے وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں۔ بم دھماکوں میں مریں یا دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ۔مہنگائی سے مریں یا خودکشیوں سے۔اس سے فرق زندہ قوموں کو پڑتا ہے۔ مردہ قوم ،مردہ لیڈر اورمردہ ایجنساں ۔ خاک خفاظت کرینگی۔ رانا ثنااللہ کو عمران خان سے فرصت ملے تو ملکی سیکورٹی پر بھی توجہ دے لیں۔ آرمی کا کام بیرونی سرحدوں کی خفاظت ہے۔ اندرونی سرحدیں جرنیلوں کی ملکیت ہیں۔ وہ زمینوں پر قبضے کریں کالونیاں بنائیں۔ یا ملک کو دہشتگردوں کے سپرد کریں ۔بات ایک ہی ہے۔ مرنا تو آخر ایک دن ہے۔ کرائم منسٹر ترکی کے دورہ پر فوٹو سیشن میں ہے۔ ڈپٹی کرائم منسٹر اسحاق ڈالر کہتا ہے کہ مہنگائی اور ڈالر کا اللہ ہی خافظ ہے۔ ایسے ہی ملک کا بھی اللہ خافظ ہے۔ آپ لوگ تو مسخرے ہیں۔ جب دہشت گرد پولیس ہیڈ کواٹر پر حملہ آور تھے عین اسی وقت (خبطی خان )عمران خان اے آر وائی پر نمودار ہو تے ہیں کہ بائیس فروری سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہو گا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہو ں کہ اگر خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں نظام حکومت آجائے تو عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہو گا، اخلاق زندگی بہتر ہو گا۔ سب کو آزما لیا۔ملک کے موجودہ حالات کا واحد حل جماعت اسلامی ہے۔ صرف اور صرف جماعت اسلامی۔ اس وقت نام نہاد حکومت اوراپوزیشن کی تماشبینی جاری ہے۔ غیرت پروف۔حیا پروف۔گالی پروف اشرافیہ کے کالے کرتوتوں سے ملک ڈوب رہا ہے۔ ایٹمی اثاثے جو ہماری خفاظت کے ضامن ہیں۔ اسے شدید خطرہ ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے سیاسی اشرافیہ سے ملکر ،مملکت خدادا کا استحکام اور سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔ تمام طبقات تماشائی بنے بیٹہے ہیں۔ یاد رکہیں ملک رہے گا تو ہم پالیٹکس بھی کھیل لینگے ۔ملک کو بچانے کے لئے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔موجودہ حکمران،اپوزیشن اور مذہبی رہنما بے حس، بے شرم اور غیرت سے عاری لوگ ہیں۔ گالیاں،لعنتیں، بددعائیں اور جوتے ان کی غیرت نہئں جگاسکے۔انہییں چوروں اور چوراہوں پر گھسیٹنا ہو گا۔مہنگائی اور بلوں سے مجبورلوگ خودکشیاں کررہے بیں۔نوجوان نسل میں مایوسی اور پریشانی ہے۔ ملک ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ سیاسی گماشتوں کو ایکدوسرے کو زیر کرنے کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہئں۔ وطن عزیز کو دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ حکمران آئی ایم ایف سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ مگر ان کی عیاشیاں اور اللے تللے ختم نہئں ہو رہے۔ سینٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کو فری پٹرول دیاجاتا ہے۔ جن میں جج، بیوروکریٹ ،جرنیل ،ممبران اسمبلی اور سیاسی لوگ شامل ہیں۔ یہ معاشی دہشت گرد ملکی وسائل لوٹ رہے ہیں۔ قربانی عوام سے مانگتے ہیں۔ اگر ان کا پٹرول بند کر دیا جائے تو ہمیںباہر سے امداد کی ضرورت نہئں۔ اپوزیشن کرپشن کا واویلا کرتی ہے۔ لیکن ٹی اے ۔ڈی اے اور مراعات نہئں چہو ڑتی ہے۔ یہ نام نہاد سیاستدان لٹیرے اور وحشی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانبداری نے حالات کو سنگین صورتحال سے دو چار کردیا ہے۔ صدر مملکت نے الیکشن کا اعلان کرکے معاملات کو پوائنٹ آف نوریڑن پر لا کھڑا کیا۔حکومتی ارکان صدر مملکت کے مواخزے کی بات کرتے ہیں ۔لیکن دو صوبائء اسمبلیوں کے استعفوں کیوجہ سے پریذیڈنٹ کا الیکشن نہیں ہو سکتا۔ نہ امپیچمنٹ ہو سکتی ہے۔ جرنیلی مافیہ اور عدلیہ ملکی حالات اور پورے گند کی ذمہ دار ہے۔ ججز اور جرنیل کا نیٹ ورک عوامی تباہی کا،معاشی دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ قاضی (یعنی جج کو اللہ جو مقام عطا فرماتے ہیں۔ بہت بڑی سعادت ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہو ا کرتی ہے۔ بڑی ذمہ داری کا حساب بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی آزمائش ہے۔
ملک کے تمام اداروں میں ڈویثرن اور پولیٹیکل influence حد درجہ بڑھ چکا ہے۔ جس سے معاشی کرائسس پیدا ہو چکاہے۔ آڈیوزاور ویڈیوز نے مملکت کو انتہائی خطرناک دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ مسلم لیڈرشپ کے کرنے کا یہی کام رہ گیا ہے۔ سیاسی اور فوجی لیڈرشپ کوخطہ ،بین الاقوامی حالات،معاشی بحران، آئینی بحران کی حساسیت کاادراک نہیں۔فوجی جرنیلوں، سابق اور موجودہ وزیروں، بیوروکریٹس اور افسران کے گھروں کی تلاشی لی جائے ۔ تو اربوں ڈالر ملیں گے۔ ہمیںکسی امداد کی ضرورت نہئں۔ بیرونی امداد سیاسی اشرافیہ ، جرنیلوں اور حکمرانوں کی کرپشن کے کیے ہو تی ہے۔ جو عوام تک نہئں پہنچتی۔اشرافیہ کی مراعات ختم کریں تمام آرمی،نیوی اور ،ائرفورس کے افسران،ججز، بیوروکریسی ،وزیروں،مشیروں کی سرکاری مراعات ختم کرکے گاڑیاں بیچ دی جائیں۔اپنی ذاتی گاڑیوں، ذاتی پٹرول پر دفتر آمد ورفت شروع کریں،گھر کے گیس بجلی،ٹیلیفون کے بلوں کی ادائیگی اپنی تنخواہوں سے ادا کریں،جس طرح ایک عام ملازم پیشہ افراد و عوام کرتی ہے،بیرونی اشیا کا استعمال بند کریں۔۔ ایک ماہ میں کھربوں روپے کی بچت ہو جائے گی،ایک سال میں سارے کا سارا بیرونی و اندرونی قرضہ ادا ہو جائیگا۔ایک ماہ میں تمام بنیادی اشیا کی قیمتیں دس سال پرانی حالت پر آسکتی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سیلاب میں تیس ارب ڈالرز کے نقصانات ہو ئے۔ ایلیٹ کلاس کو پندرہ ارب ڈالرز کی سالانہ سبسڈی دی جاتی ہے۔ اگر انکی دوسال سبسڈی بند کردی جائے تو ہمیںبھیک مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ ایلیٹ کلاس ارکان اسمبلی اور موجودہ اشرافیہ ہے۔ سینٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ سالانہ 17.04 ارب ڈالرز مراعات لے رہی ہے۔ جو بجٹ کاففٹی پرسنٹ ہے۔ اگر انکی مراعات بند کردی جائیں تو ہم چند سال میں خوشحال ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریجنل اور گلوبل صف بندیاں جاری ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اچانک،غیر اعلانیہ دورہ پر یورپ اور پھر دس گھنٹے ٹرین سے سفر کرتے ہو ئے یوکرائن پہنچ گئے۔امریکہ،روس، چین اور بڑی طاقتیں اپنی سپر میسی کی دوڑ میں ہیں۔ اور ہمارے ہاں جمہوریت ہچکولے کھا رہی ہے۔ بحیثیت قوم ہم سنبھل نہیں پارہے۔کرپشن،جلا گھیرا کے علاوہ نہ ہمارے کوئی ویثرن ہے اور نہ ہی سوچ۔ کہ ملک کو آگے کیسے لے جانا ہے۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن اناج باہر سے منگوا رہے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاسی عمائدین کو نا خوف خدا ہے اور نہ فکر آخرت ۔ مہنگائی کا ظلم ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ کی آمد ہے۔ عوام عبادات کے ساتھ حکمرانوں کو صبح و شام بدعائیں اور لعنتیں دیا کرینگے۔ خدارا، شام اور ترکی کا بدترین زلزلہ ہمیں جھنجھو ڑنے کے لئے کافی ہے۔ وہ لوگ اعمال و کردار میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمارے نہ کردار اچہے نہ اعمال۔ ہر برائی ہم میں موجود۔اور بھلائی سے کوسوں دور ہیں۔ عقل حیران ہے کہ جو قوم اللہ اور رسول اللہ کے کلمہ کی بنیاد ہو ۔ وہ پریشان حال، اور ذلیل و رسوا کیوں ہے۔
قارئین کرام! ۔ ملک میں فوری منصفانہ،آزادانہ اور شفاف الیکشن کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایسا غیر جانبدار سیٹ اپ لایا جائے جو ایمان دارانہ،منصفانہ اور شفاف الیکشن کروائے تاکہ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here