قارئین کرام ہم جس وقت یہ سطور لکھ رہے ہیں پاکستان میں جو حالات آئے دن جاری ہیں وہ یقیناً قارئین خصوصاً ہر پاکستانی کیلئے باعث تشویش ہی نہیں اس امر کا مظہر بھی ہے کہ ماہ اگست جو ہماری آزادی اور وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کا سنگ میل ہے، خدانخواستہ کسی انہونی کا مظہر نہ بن جائے۔ 5 اگست کے حوالے سے ان حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس تاریخ پر 2019ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی ہندوتا حکومت نے اس کی آئینی حیثیت سے محروم کیا، 2023ء میں پاکستان کے سب سے بڑے عوامی حمایت و مقبولیت کے حامل رہنما کو پابند سلاسل کیا گیا اور آج بھی وہ زندان کی کٹھنائیاں برداشت کر رہا ہے۔ اس ہفتہ 5 اگست کو بنگلہ دیش میں کئی عشروں سے اقتدار پر قابض، مخالفین کو ہر طریقے سے سیاسی ایرینا سے محروم رکھنے والی، ظلم و بربریت اور قتال کے ذریعے حکمرانی کرنے والی حسینہ واجد کو مفروریت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ حقائق پر نظر ڈالیں تو امریکہ و بھارت کی مسلسل حمایت، اپنی فوج کی تمام تر حمایت اور سپورٹ کے نہ صرف اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ اپنی جان کے تحفظ کیلئے ملک چھوڑنے تک پر مجبور ہوئی۔ حسینہ واجد کے اس انجام کی بنیادی وجہ میرٹ کے برعکس مکتی بانیوں کی اولادوں کا کوٹہ بنا جس پر عوام کا احتجاج تھا جو نافرمانی کی تحریک تک پہنچا اور حسینہ واجد کی حمایت کرنے والی فوج بھی اس کی مدد نہ کر سکی بلکہ 48 گھنٹے کے الٹی میٹم پر مجبور ہوئی کہ ملک چھوڑ دے۔
اس تفصیل میں جائے بغیر کہ حسینہ واجد کو اپنی مقتدرہ کی کتنی حمایت تھی اور موجودہ سربراہ سے اس کی رشتہ داری کے باوجود عوام کا سیلاب کس طرح اقتدار بلکہ اپنی وطنیت سے بھی بہا کر لے گیا ہمیں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ خواہ اداروں کی کتنی بھی مدد ہو، عوام کی حمایت کے بغیر نہ اقتدار کا تحفظ ممکن ہے اور نہ وطن کے سیاسی، معاشرتی و دفاعی تحفظ کی ضمانت ہوتی ہے۔ وطن عزیز جس بے یقینی کے حالات سے گزر رہا ہے اور جس طرح عوام کی مرضی کے برعکس کارہائے حکومت و مملکت چلائے جا رہے ہیں، ان کے نتائج سوچ کر سچے پاکستانیوں کو متوقع پیش آمدہ حالات و نتائج کا خوف ہی آتا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کی توہین اور اداروں کے درمیان تفریق و تقسیم نے ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جو مزید بد امنی شورش اور خطرناک حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر حکومتی اتحاد کی الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کی کابینہ سے منظوری اور پارلیمنٹ سے منظوری کا اقدام جہاں منطقی طور پر نیا پینڈورا باکس کھولنے اور عدالت عظمیٰ کے سخت رد عمل کا باعث بن سکتا ہے وہیں عدالت عظمیٰ کے دو منصفین جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ بُھس میں چنگاری کے مترادف ہے۔ ہر دو جسٹس حضرات نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے آئینی اداروں کو عملدرآمد نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ حکومتی الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے وقت پر متذکرہ اختلافی نوٹ مخصوص نشستوں کے معاملے کو لٹکانے اور ایوانوں میں سب سے زیادہ نشستوں کی حامل پی ٹی آئی کو محروم رکھنے کا کریہہ اقدام ہے۔ ہمارا اندازہ تو یہ بھی ہے کہ یہ سارا کھیل اس مخاصمت اور لڑائی کا شاخسانہ ہے جو دو شخصیات کی ذات سے بڑھ کر اداروں کے درمیان بلکہ عوام اور مملکت تک پھیل چکا ہے اور اس کے وطن عزیز پر مضمرات خطرناک ہی ہو سکتے ہیں۔
اس وقت حالات اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ آئین، قانون، حکومت، معاشرت اور عوام تک کہیں بھی اطمینان، سکون و حق کے حصول کی صورت نظر نہیں آتی۔ عوام کے حقوق سے انحراف کا نتیجہ تازہ ترین بنگلہ دیش کی وزیراعظم کا حشر ایک واضح مثال ہے کہ فوج بھی اس کی ہمدردی کے باوجود تحفظ نہ دے سکی۔ ہمارے غیر مقبول اور بیساکھیوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے فارم 47 کے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ کتنے بھی مضبوط ادارتی سہاروں کے باوجود اگر عوام ان کیساتھ نہیں ہیں تو حالات ان کے حق میں کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔ اس حقیقت سے کوئی انتظار نہیں کیا جا سکتا کہ عوام ہی کسی رہنما کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا منبع ہیں کوئی فوج، کوئی عدالت یا ایجنسی خواہ جتنی بھی مقتدر یا مضبوط ہو متعلقہ رہنما اور سیاسی جماعت کو تقویت نہیں دے سکتے۔ صوابی میں عمران کی رہائی کیلئے ہونیوالا تاریخی جلسہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ تمام تر ریاستی مخالفتوں، چیرہ دستیوں اور تمام منفی اقدامات و سخت مؤقف کے باوجود پاکستان بھر سے خان کے پروانوں اور شیدائیوں نے جس طرح شرکت کی اس سے ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ کئی برسوں میں اتنا بڑا جلسہ کسی بھی رہنما کے حق میں نہیں ہوا ہے یہ امر اس حقیقت کو اُجاگر کرتا ہے کہ عمران کی مقبولیت جس حد پر پہنچ گئی ہے وہاں مقتدرین کی عدم قبولیت اور حقیقت تسلیم نہ کرنا محض حالات کو خراب کرنا ہی ہے، ترجمان آئی ایس پی آر کی پانچ اگست کی کانفرنس یہی ہے کہ مقتدرہ کسی طور بھی عمران اور پی ٹی آئی کیلئے مفاہمت پر تیار نہیں، یہی نہیں یہ حقیقت بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان حالات خوشگوار نہیں بلکہ عدلیہ کے اندر بھی دراڑیں گہری ہو رہی ہیں۔ ہمیں خوف ہے کہ عوام اور فوج کا سامنا ہوا اور آئینی، عدالتی اور مقتدرہ کے درمیان اختلاف میں مزید اضافہ ہوا تو پاکستان میں بھی بنگلہ دیش جیسی صورتحال نہ ہو۔ پاکستان فسطائیت کا متحمل ہو سکتا ہے نہ جمہوریت سے ہٹ کر کوئی اور نظام پاکستان کیلئے یا عوام کے حق میں نہیں ہو سکتا ہے، وقت کا تقاضہ مطاہمت اور باہم یکجائی کے سواء کچھ نہیں۔
٭٭٭