رمضان کا مہینہ، ہے آبشار ِ رحمت !!!

0
36

رمضان المبارک کے مہینے کا پہلا حصہ، اس دنیا کیلئے نزولِ رحمت کا بیش بہا قیمتی وقت سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو رب العالمین کی رحمت کے بغیر ہم ایک سانس بھی نہیں لے سکتے لیکن اس مبارک ماہ کے اس اولیں حصے کو سراپا رحمت سمجھتے ہوئے، ان لمحات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ مہدی پرتاپ گڑھی نے کیا خوب کہا ہے کہ!
پھر آگیا جہاں میں رمضان کا مہینہ
اللہ کے کرم اور احسان کا مہینہ
اللہ کی عنایت اور اس کی خاص رحمت
ہم کو عطا کیا ہے قرآن کا مہینہ
سال کے رمضان کے دنوں میں ہمارے کئی ایسے دوست ہمارے ساتھ موجود تھے جو اب اس سال کے رمضان میں موجود نہیں بلکہ وہ اپنے رب کے حضور حاضری دے چکے ہیں۔ ہمیں اللہ کی خاص رحمت سے ایک مرتبہ پھر رحمتوں کے اس مہینے سے استفادہ کرنے کا موقع میسر ہے۔ دیکھئے، ہم اس نعمت سے کتنا فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔اس ماہِ مبارک میں جسمانی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادت کے بھی خاصے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ اشتراکیت کے بعد چونکہ سرمایہ داری نظام بھی انسانی ضروریات پوری کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے، اس لئے ہمارے صدقات و خیرات کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یاد رکھئیے، فرض زکات تو صدقہ و خیرات کی کم از کم حد ہے۔ اس کے بغیر تو ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ اصل مالی عبادت تو اس اڑھائی فیصد کے بعد شروع ہوتی ہے۔ مساجد اور فلاحی اداروں کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا اجر رمضان کے ان مبارک دنوں بہت بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی رحمتوں کو سمیٹنے کے یہ بہترین دن ہیں۔ کوشش کریں کہ اس سے مکمل استفادہ کریں۔ صدقات و خیرات دینے کیلئے بہت زیادہ امیر ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ مال کے انبار کے مقابلے میں دو کھجوروں کے صدقے کو نبی اکرم نے سب سے افضل قرار دیا تھا اور شہزاد احمد تو کہتے ہیں کہ!
خیرات کیا وہ بھی جو موجود نہیں تھا
تو نے تہی دستوں کی سخاوت نہیں دیکھی
مولانا مودودی کتاب الصوم میں تحریر فرماتے ہیں:
سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینہ پر کچھ دھندلاہٹ پیداہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے ، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمھیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقوی ، کچھ خوف خداکچھ نیکی کے ابھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے۔ اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو ، فسق و فجور کے آثارنمایاں ہوں، اور اسلامی حس مردہ نظر آئے ، تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لو ۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمانکے لیے مقدر نہیں ہے ۔مولانا محترم کے اس ارشاد کے مطابق جب میں امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کا جائزہ لیتاہوں تو اپنی اس کمیونٹی پر رشک آتا ہے کہ جو ماہِ شعبان سے ہی رمضان کے اس مبارک مہینے کے استقبال کا اہتمام شروع کر دیتی ہے۔ تقریبا ہر بڑی مسجد میں رمضان بازار لگ جاتے ہیں، مساجد کی عمارتوں اور کارپٹس کی صفائی ستھرائی شروع ہو جاتی ہے۔ مختلف تنظیمیں استقبالِ رمضان کے پروگراموں کے ذریعے پبلک کو آدابِ صوم سے آگاہ کرتی ہیں۔ حفاظِ کرام تراویح میں قرآن سنانے کیلئے اپنے کنٹریکٹ فائنل کرلیتے ہیں۔ رمضان کے مبارک دنوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے۔ نوجوان اپنے پسندیدہ قاریوں کو سننے کیلئے مختلف مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ خواتین کے دور قرآن کے اجتماعات اب اکثر زوم پر (آن لائین) ہوتے ہیں لیکن کچھ حلقے مساجد میں بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ حلال ریسٹورینٹس اپنے افطار کے مینو، اس قدر ورائٹی سے تشکیل دیتے ہیں کہ پورے عالمِ اسلام کا فوڈ کلچر آپ کے سامنے آجاتا ہے۔ افطاریوں کی دعوتیں اب ویک اینڈ سے پھیل کر ویک ڈیز میں داخل ہو چکی ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیمیں، غریبوں کیلئے راشن اور ہاٹ میلز تقسیم کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر، انا للہ کی بجائے الحمداللہ کہنے کو دل کرتا ہے۔ کاش سید مودودی آج اس علاقہ کا دورہ کرسکتے تو ان کا دل بھی خوشی سے باغ باغ ہوجاتا۔ ان کے لگائے ہوئے پودے خوب پھل پھول رہے ہیں اور مغربی تہذیب کے عین مرکز میں اللہ اکبر کی پاکیزہ صدائیں گونج رہی ہیں۔ یورپ کے شاہی محل ہوں یا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طاقتور ایوان، ہر جگہ اذان اور افطار کے اہتمام ہورہے ہیں۔ مغرب کی پرانی روشنیوں میں اب رمضان کی روشنی کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ کی سرد شاموں کے شکاگو شہر کے ایک پردیسی طالب علم کو یہ سب ایک دیوانے کا خواب لگتا تھا۔ لیکن خواب، خواہ دیوانے کا ہی کیوں نہ ہو، خواب ہی ہوتا ہے اور اس کی تعبیر بھی بالآخر حاصل ہو کر رہتی ہے۔ شکر ہے میرے رب کا کہ اس نے مرشد مودودی کے مریدوں کو انکی تحریریں پڑھ کر یہ خواب دیکھنے کی توفیق دی اور اب اس دنیا کا مستقبل، دینِ اسلام کے ساتھ وابستہ نظر آتا ہے۔
مشہور شاعرہ زیب النسا زیبی صاحبہ کے یہ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
رمضان کا مہینہ، ہے آبشار ِ رحمت
پیہم عبادتوں کی رکھنی ہے اس میں حرمت
اعمال ِ بد کی تم کو ،ہے مغفرت کی حاجت
توبہ کرو برابر ، کرتے رہو سخاوت
روزے کی برکتوں سے ، ہے ہر عمل عبادت
پر ہیز جھوٹ سے ہو ، ہو جاے ترک ِ غیبت
پا س ِ حقوق ِ انساں ،ہے مومنوں کی جنت
انسان سے محبت، یہ ہے بڑی عبادت
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here