ممنوعہ فنڈنگ!!!

0
316
شبیر گُل

گزشتہ دنوں ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ آنے پر محکمہ عمرانیات نے سکھ کا سانس لیا ہے ۔ طلسماتی مخلوق نے فیصلہ کو آخری وقت پر بیلنس کرایا گیا۔حالانکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں دفعہ 62,63 کا اطلاق ہونا چاہئے تھا۔ جن لوگوں نے گزشتہ چار سال ریاست مدینہ کے نام اور مذہب کارڈ کو استعمال کیا ہے۔ سوال پوچھنے پر ایسے بھڑکتے ہیں۔ جیسے محب وطن، اور مسلمان صرف یہی ہیں۔
یوتھیوں کی نظر میں سب کافر
سب کرپٹ، سب غدار
ان غداروں ہاتھ ملانے والے کون؟
اب دین کی تشریح وہ ہوگی ہو عمران
جہاد کی تشریح ۔حرمت رسول کی تشریح
عمران اور پی ٹی آئی کے رہنما کرینگے
ہر شرابی اور بدبودار نے بھی تسبیح کو فیشن کے طور پر ہاتھ اور کلائی پر ڈال رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن، پی پی پی، پی ٹی آئی ،ایم کیو ایم کے جلسوں میں انوسٹمنٹ کرنے والے بزنس ٹائیکون ملک ریاض،عارف نقوی پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا کیونکہ پارٹی فنڈنگ ۔لوٹے خریدنے اور جہازوں میں بھر بھر کر الیکٹیبلز کو لانے والوں کو زمینوں پر قبضے۔ مہنگی بجلی قرضوں کی معافی پر فری ہینڈ دیا جاتا ہے۔ کھانے پینے کی ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ مگر مضر صحت تمباکو پراڈکٹس یعنی سگریٹ پر ٹیکس کی چھوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ پی ٹی آئی، ن لیگ، پی پی پی،اور ایم کیو ایم ملوث رہی ہیں۔ چوری، ڈاکے، لوٹ مار کی گردان سنانے والے عمران خان توشہ خانہ سے لیکر ممنوعہ فنڈنگ، ایم پی اے، ایم این اے،سینٹرز کو خریدنے تک،سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ یوتھیوں کی عقل پر پردہ ہے، آنکھوں پر پٹی اور دماغی توازن ہل گیاہے ۔ جسکی وجہ سے پارٹی میں ہونے والی کرپشن بالکل نظر نہیں آتی۔عمران خان نے غنڈوں اور بدتمیزوں کی جو فورس تیار کی ہے۔ وہ سیاست سے لیکر دین تک ہر چیز کی تشریح اپنی مرضی کی کرتے ہیں!
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب ہی ان کی زلفوں کے اسیر ہوئے
حیران ہوں کہ مسلم لیگ ،پی پی اور ایم کیو ایم والے بھی عارف نقوی کی پی ٹی آئی فنڈنگ پر طعنے مار رہی ہے۔ عارف نقوی اور ملک ریاض اس دریا کی مانند ہیں جس سے خان کی پارٹی سے لے کر نواز شریف تک اور آصف زرداری سے ایم کیو ایم تک سب نے فیض حاصل کیا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی جگہ حکومت میں موجود ہیں۔ ق لیگ پنجاب۔ ن لیگ وفاق۔پی پی سندھ۔پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ۔ صدر پی ٹی آئی۔ وزیراعظم ن لیگ وزیر خارجہ پی پی ۔ ایم کیو ایم ۔ فضل الرحمن ۔یہ سب لوگ مل کر عوام کو بیووقوف بنا رہے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹ رہے بیں۔ بے نامی فنڈز ، جھوٹا بیان خلفی ،پانچ سال تک غلط انفارمیشن فراھم کرنا۔ یہ سب چیزیں پی ٹی آئی کے خلاف مواد تھیں ۔ جس کی وجہ سے فیصلہ انکے خلاف آیا۔ پی ٹی آئی کے لئے گھبرانے کا وقت آچکا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہوچکا ہے، کہ اس بار گیم اتنی آسان نہیں۔ ن لیگ پوری کوشش کرے گی کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں اسے ٹف ٹائم ملے۔ فارن فنڈنگ میں دوسری جماعتوں کو بھی ایسے فیصلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار عروج پر ہے۔ افراتفری اور بے چینی ہے۔ معاشی بدحالی اور بے یقینی ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بلوچستان میں ہزاروں مکانات صفحہ ہستی اے مٹ گئے ہیں۔ مہنگائی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ پی ٹی آئی اور حکومتی شخصیات نے ایکدوسرے کے خلاف مخاذ گرم کردیا ہے۔ اسی دوران ایک بہت بڑا سانحہ رونما ہوا ۔پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹر بلوچستان میں گر کر تباہ ہوا۔ جس میں کور کمانڈر جنرل سرفراز، کوسٹ گارڈ چیف ،میجر جنرل، برگیڈئر ،اور کئی اعلی افسران شہید ہوئے۔ یہ افسران سیلاب کی تباہ کاریوں کا فضائی جائزہ لے رہے تھے۔ اللہ ان شہدا کے درجات بلند فرمائے۔
عمران خان کو فنڈنگ دینے شیخ نہیان 5 بھارتی تاجروں کے ساتھ آئے جنہوں نے پی ٹی آئی کیلیے پیسے دیئے۔ عارف نقوی نے پی ٹی آئی کو کل رقم 22 ملین پانڈ سے زیادہ ادا کی ہے۔عمران خان نے جنرل شجاع پاشا کی موجودگی میں عارف نقوی اورعمران چودھری کے ساتھ بھارتی تاجروں سے ملاقاتوں میں شرکت کی۔
عارف نقوی نے تصدیق کی ہیکہ یہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا تھے جنہوں نیان سے عمران خان اورپی ٹی آئی کی سیاست کیلییفنڈز کا بندوبست کرنے کو کہا تھا۔ شجاع پاشا نے 2011 میں دبئی میں عارف نقوی سے کئی بار ملاقات کی اور عمران خان، عارف نقوی اور دبئی کے بزنس مین عمران چوہدری سے مشترکہ ملاقاتیں کیں۔ ان عشائیوں میں یہ درمندانہ اپیل کی گئی کہ پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت ہیاورعمران خان کی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ عارف نقوی نے پی ٹی آئی کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے دنیا بھر میں سفر کیا۔ امریکہ میں کئی دستاویزات ابھی تک سربمہرہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نقوی نے 22 ملین ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی ہے۔ عارف نقوی نے پی ٹی آئی کے لیے سخت محنت کی کیونکہ وہ جنرل پاشا کو خوش کرنا چاہتے تھے جنہوں نے نقوی سے وعدہ کیا تھا کہ کیالیکٹرک سمیت کراچی میں ان کے کاروباری مفادات کاخیال رکھا جائے گا۔ اس کے بعد نقوی نے ہیلتھ سنٹر قائم کیا اور پاکستان میں 3 شاپنگ مالز خریدے۔شجاع پاشا نے نقوی کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں ہٹائیں اور نقوی کی مدد کی۔ پاکستان کی فوجی تنصیبات پی ٹی آئی کی مدد کے لیے نقوی اور عمران چودھری کی خدمت کے لئے کھول دی گئی تھیں۔ “ریاست مدینہ کے امیر المومنین ”
قارئین کرام! البراج گروپ کے نقوی صاحب کے پی ٹی آئی کو دی گئی ممنوعہ فنڈنگ کے سوال پر یوتھئیے آگ بگولہ ہورہے ہیں۔ عمران صاحب کہتے ہیں اس بچارے نے تھوڑی سی منی لانڈرنگ کی ہے۔ پی ٹی آئی اگر ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے تو پارٹی فنڈز یا ممنوعہ فنڈنگ پر گالم گلوچ کیوں کرتے ہیں۔ چوری یا کرپشن ایک آنہ ہویا ایک کڑوڑ ، اسے چوری ہی کہا جائے گا۔جیسے دودھ میں گرنے والی تھوڑی سی گندگی سارے دودھ کو خراب کرتی ہے۔ ایسے ہی چوری،منی لانڈرنگ اور کرپشن کا معاملہ ہے۔ البراج گروپ نے پاکستانی عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ ریاست مدینہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے عمران خان کبھی بھی الیکٹرک مافیا کے خلاف میدان میں نہیں نکلیں گے۔ کیونکہ یہ لوگ انکے مالی سپورٹرز ہیں۔ بڑے بڑے بزنس مین ٹائیکون ،بلڈرز،الیکشن میں پیسہ لگاتے ہیں اور الیکشن کے بعد ناجائز ٹھیکے،زمینوں پر قبضے جیسے کام کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
اسکے برعکس یورپ اور امریکہ میں سیاستدان عام عوام سے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کے لئے فنڈ ریز کئے جاتے ہیں،ان کا ایک خود کار نظام ہے ۔ ایک شخص کی طرف سے زیادہ سے زیادہ 4,900 کا چیک دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ووٹ خریدنے،کروڑوں الیکشن مہم پر صرف کرنے پر کوئی نہیں پوچھتا۔؟ کیونکہ الیکشن کمیشن وغیرہ ان سیاستدانوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن سے کیا شکایات ہیں۔ ؟ اگر واقعی یہ لوگ ریاست مدینہ کے علمبردار ہیں۔ تو انکے امیدوار باکردار اور اچھے کریکٹر کے ہونے چاہیں۔ انتخابی امیدوار کے پوسٹرز ، پبلسٹی کے اخراجات کا تعین ہونا چاہئے۔ جو ایک چھابڑی والا اور مزدور بھی الیکشن میں بلا خوف حصہ لے سکے۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں کے جلسوں پر کروڑوں کے اخراجات کون بھرتا ہے۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کو کسی کی طرفداری نہیں کرنی چاہئے۔سب جماعتوں کو آئینی تقاضوں کے مطابق ڈیل کرنا چاہئے۔پارٹی اخراجات میں سب سے یکساں سلوک ہونا چاہئے۔ جرنیلوں کو پین حدود سے تجاوز نہیں کرناچاہئے۔جرنیلوں نے پارٹیاں اور بندے بانٹ رکھے ہیں ،کوئی بلاول ،کوئی مریم ،اور کوئی عمران کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب کتی چوروں سے ملی ہوتو اس گھر کی خیر نہیں رہتی۔اسلئے مخافظ سلیکٹر نہ بنیں۔اور نہ ہی چوروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔
پی ٹی آئی،ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے ڈاکوئوں کی سرپرستی نہ کریں، اپنا کھویا ہوا وقار بحال کریں۔ہر دور حکومت میں جرنیلوں کو گالیاں اسی لئے پڑتی ہیں کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ جرنیلوں کو کرپشن کا حرام مال لگ چکا ہے اس لئے انہیں نظریاتی، محب وطن ، باکردار اور ایماندار لوگوں سے چڑ ہے۔ جن لوگوںنے بنگلہ دیش میں تیس ہزار نوجوانوں کی قربانیاں دے کر افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔لیکن جرنیل آزادانہ الیکشن کی بجائے بدکردار، بدبودار اور حرام خور لٹیروں کو سلیکٹ کرتے ہیں جو ملکی سلامتی کیلئے ہمیشہ چیلنج ثابت ہوئے۔ ایسے لوگوں کو ووٹ دینے سے پہلے ضرور سوچیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here