کیوں نہ ہم”خدا کی بستی” کو فروغ دیں

0
91
کامل احمر

پچھلے دو سالوں سے ادبی اور شاعری کی محفلوں پر ہر جگہ جمود طاری ہوا ہے اور اس کووڈ19کے عذاب سے نکلنے کے بعد سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔پچھلے ماہ میں ارباب ذوق نے عالمی مشاعرہ کرا کر اپنی روایات کو برقرار رکھا بہرحال یہ عالمی مشاعرہ تھا جس میں امریکہ اور پاکستان کے شعراء کے علاوہ مقامی شعراء نے بھی اپنے کلام سے سامعین کو نوازہ اور ثابت کردیا کہ اردو کا سفر شاعری کی شکل میں جاری ہے ہم انتظامیہ کو مبارکباد دینگے۔اور ناسا کائونٹی کو بھی کہ وہ ادبی اور سماجی پروگرام کے لئے اپنے ہال فراہم کرتی ہے طعام کے علاوہ۔لیکن پچھلے اتوار صوفی ایڈلٹ ڈے کیر سینٹر نے دونوں ضروریات یعنی جگہ اور طعام کا انتظام کیا تھا اور ہر ادبی انجمن کو یہ ہال بلامعاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا اس ہال کے کرتا دھرتا افتخار بٹ ہیں۔شاعروں اور ادیبوں کو اس سے زیادہ کیا چاہئے اور خوبصورت بات یہ تھی کہ نیویارک یا یوں کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ شمالی امریکہ کے سب سے سینئر شاعر اور نقاد اور کئی کتابوں کے مصنف مامون ایمن کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے محفل کا اہتمام کیا گیا تھا یہاں کی ادبی انجمن فکروفن نے ایک خوبصورت محفل سجائی تھی جس میں قرب وجوار میں رہائش پذیر ادبی ذوق رکھنے والے شائقین ادب، شعراء اور ادیب شامل تھے اس کا سہرہ شاہد کا مریڈ ایکٹی وسٹ جاتا ہے جنہوں نے کچھ ماہ پہلے ہم سے ذکر کیا تھا کہ ہم سب کوچاہئے کہ وہ لوگوں کو انکی زندگی میں ہر خراج تحسین پیش کریں اس کے لئے مامون ایمن کا نام مناسب تھا کہ بہرحال وہ ایک بڑے طویل عرصہ سے ان محفلوں سے جانے پہچانے ہیں ہمارے خیال میں اب تک ہونے والی ادبی محفلوں میں یہ سب سے اچھی باقاعدہ نشست تھی جس میں مشہور کالمسٹ عتیق صدیقی، محترمہ خالدہ ظہور، جمیل عثمان، مقسط ندیم، رانجی داس سیٹھی نے عبدالقادر فاروقی کی صدارت میں مقالے پڑھے شاہد کا مریڈ نے اچھوتی بات کرکے ناظرین کی سوچ کو تبدیل کردیا کہ خوشیاں بانٹو کہ اگر بچہ جھنجنا دینے سے خوش ہوتا یا لڈو دینے سے تو اسے وہ فراہم کرو یہ بات انہوں نے نازک مزاج لوگوں کے بارے میں کہی۔آخر میں مامون ایمن نے اپنے بارے میں ادبی شاعری اور رباغی کی بابت،علمی معلومات دیں اور ذاتی پہلوئوں کو بھی بھرپور انداز سے اجاگر کیا لوگوں نے ان کی اس صاف گوئی کو سراہتے ہوئے بھرپور انداز میں پذیرائی کی اور وکیل انصاری صاحب نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے محفل کے میزبان افتخار بٹ کو دعوت دی جنہوں نے اختتام کرتے ہوئے طعام کی دعوت دی۔دو گھنٹے اور سترہ منٹ کی طوالت کے اور طعام کے بعد مختصر مشاعرے کا بھی اہتمام ہوا ہم کہہ سکتے ہیں اس سال کی یہ دوسری بڑی اجتماعی محفل تھی کووڈ19کی زد میں کافی جانے پہچانے اور مشہور شعراء اور ادبی شخصیات آئے۔ان میں یونس شرر، مشیر طالب ہم سے جدا ہوگئے۔ادب کے تعلق سے ہی ہم نئے اور پرانے لکھاریوں کا دھیان دوسری طرف لے جائینگے کہ22کروڑ آبادی کے اس ملک میں جہاں صلاحیتوں سے بھرپور نوجوانوں کی تعداد کافی ہے۔کھیل، فن، سینما افسانہ، ناول نگاری گویا فنون لطیفہ کے ضمن میں ہم مالا مال ہیں لیکن دنیا میں ہم اپنا مقام کیوں نہیں بنا پائے ان سب فنون کو ایوب خان کے دور میں شباب آیا لیکن اسکے بعد محفلوں میں جیسے روشنی نہ رہی کہ ہم ہر شعبہ میں بدعنوانی اور اقربا پرستی کا شکار ہوگئے۔میرٹ کا قتل عام ہوگیا لوگوں نے پیسے دے دے کر مقالے اور ریسرچ پیپر تیار کروائے اور ان پرPh.dاور ایم فل کی اسناد لے کر ڈاکٹر اور پروفیسر بن گئے یہ چلن جاری ہے اور شاید رہے ہم نے وہ کہانیاں لکھنا شروع کیں۔جو معاشرے میں چند جگہوں کی پہچان ہے میڈیا پر واہیات اور بے ہودہ ٹاپک کو ڈرامائی شکل دے کر اسے مال بنانے کا ذریعہ بنا لیا یہ ہی حال کھیل(کرکٹ) میں ہوا کہ کوئی نام نہ بنا پائے75سال میں کوئی دانشمند پہچانا نہیں گیا منٹو غلام عباس، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی، اشعار حسین کے بعد آخری سوار مستنصر حسین تارڑ رہ گئے۔ہم نے اپنے معاشرے کی عکاسی کرنا بند کردی یہ کام کوئٹہ بلوچستان لے کر چلنے کا رواج آئی فون کی نذر ہوگیا پچھلے دنوں لاہور میں پیدا ہونے والے نوجوان ناولسٹ محسن حمید کی نئی ناولTHE LAST WHITE MAN(آخری گورا آدمی)پر پورے صفحہ پر تبصرہ دیکھ کر خوشی لیکن تفصیل پڑھ کر رنج ہوا کہ یہ نوجوان لکھاری احساس کمتری کا شکار ہے۔لندن میں پرورش ہوئی ہے لیکن پاکستان آنا جانا رہنا جاری ہے تو اس نے اپنی ناول کا کینوس پنجاب کو کیوں نہیں بنایا یہ ناول ستمبر11کے واقعہ سے اثر انداز ہے لیکن پلاٹ غیر دلچسپی پر ہے کہ پڑھنے والا اکتانے لگتا ہے۔یہ محسن حمید کی پانچویں ناول ہے اس ناول میں انہوں نے اس جگہ کا اسکرین پلے بنا ہے جہاں گورے لوگ بستے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا وہ پاکستان میں ہونے والی بیرونی دخل اندازیوں کو اپنی ناول کا پلاٹ بناتے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو اجاگر کرتے جس نے لاہور میں دن دیہاڑے دو جوانوں کو قتل کردیا تھا اسکی پہچان اجاگر ہونے کے بعد کیا یہی اچھا ہوتا کہ محسن حمید اپنے معاشرے کی گند پر نشتر کاری کرتے لیکن انہوں نے بھی وہ ہی لکھا جو مغرب کو پسند ہے اور جو شائع کرنے میں انکو خوشی ہے یہ کتاب بازار میں آچکی ہے تبصرہ نگار نے ابتداء میں فرانز کافکا کی ناول کے کردادر گریگر سمسا کا حوالہ دیاہے۔کہ کس طرح ایک گورا جب صبح اٹھتا ہے تو وہ برائون(Dark)بن جاتا ہے یا بتدیل ہوجاتا ہے۔کہانیاں وہ ہی اچھی لگتی ہیں جو معاشرے کے حقیقی کرداروں پر مبنی ہو اور وہ ہی کردار یاد بھی رہتے ہیں۔یہ درست ہے کہ مسلمانوں کے نام ہر مغربی معاشرے میں تعصب ملتا ہے ادب میں بھی ایمانداری کی کمی ہے وہ زمانے گئے جب مصر کے نجیب محفوظ کو1988میں ادب کا نوبل پرائز ملا تھا انکی زبان عربی تھی رابندرناتھ ٹیگور کی زبان بنگالی تھی۔اور انکی تصانیف ترجمہ ہو کر پہنچی تھیں نوبل پرائز کی کمیٹی کے پاس اور اس دور میں پیدا ہونے والا پاکستانی انگریزی کو میڈیا بنا کر اپنے کرداروں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے وہ اب برٹش پاکستانی ناولسٹ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں یہاں رہتے ہوئے ہمیں پچاس سال ہونے کو آئے یہاں کے معاشرے پر ہم بہت کچھ لکھ سکتے ہیں لیکن ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی پہچان اور وابستگی اس ملک سے ہی رکھیںگے کہ اس معاشرے میں ضم ہو کر ہی ہم یہاں کی داستان لکھ سکتے ہیں انکے جذبات بیان کرسکتے ہیں کیوں نہ ہم اپنی زبان میں اپنے لوگوں کے جذبات کی عکاسی کریں ”خدا کی بستی” کی بنیاد رکھیں دوسری زبانوں کے ادب کو نہ سنواریں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here