نیویارک (پاکستان نیوز) عالمی دنیا میں 25 فیصد آبادی کے باوجود مسلم اُمہ گلوبل میڈیا چیلنج کا مقابلہ کرنے میں برُی طرح ناکام ہوئی ہے،مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیئے جانے، نفرت آمیز واقعات اور مختلف تہمات کے الزامات کا دفاع کے لیے عالمی منظر نامے میں کوئی قابل قدر چہرہ دکھائی نہیں دے رہا جوکہ مسلمانوں کے نقطہ نظر کو وسیع اور جامع انداز میں پیش کر سکے،اس وقت امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مشہور ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے کرداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف ایک فیصد ہے ، ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مقبول ٹی وی سیریز میں بمشکل کوئی مسلمان نظر آتا ہے۔2010 میں ایمی ایوارڈ جیتنے والی ایک غیر مسلم اداکارہ نے 2018 کی برٹش لمیٹڈ سیریز” نیکسٹ آف کن” میں ایک مسلم کردار ادا کیا،”انشی ایٹوو انکلوژن اینن برگ ”یو ایس سی کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ پھیلنے والے مذہب اور قوم کے باوجود مسلمان وہ عالمی معیار حاصل نہیں کر سکے ہیں جوکہ کرنا چاہئے تھا، تحقیق کے دوران ماہرین نے امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں 2018، 2019 اور 0 200 میں عالمی میڈیا میں نشر ہونے والے ٹی وی شوز، پروگرامز کا جائزہ لیاجس کے دوران 8 ہزار سے زائد کرداروں کا جائزہ لیا گیا لیکن بدقسمتی سے اس میں کوئی بھی مسلم چہرہ نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی مسلم آواز سنائی دے سکی، مسلم کرداروں کی اکثریت مشرق وسطیٰ، شمالی افریقی ممالک میں مردوں کے طور پر دیکھی گئی ،ان 98 مسلم کرداروں میں سے 30 فیصد سے زائد تشدد کے مرتکب پائے گئے تھے، ان میں سے چالیس فیصد افراد کو تشدد اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ ایک تہائی سے بھی کم لوگ انگریزی میں بات کرنا جانتے تھے۔امریکہ میں جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پچھلے دو سالوں کی نسبت اِس سال کی پہلی ششماہی کے دوران امریکہ کے بڑے شہروں میں نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے، کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی میں انتہا پسندی کے تحقیقی مرکز” سنٹر فار دی سٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم” کے مطابق 15 بڑے شہروں کے پولیس محکموں سے جمع کیے گئے اعداد و شمار ، سال 2022 میں اب تک تعصب پر مبنی واقعات میں اوسطاً 5 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتے ہیں، جبکہ اِن 15 شہروں کی مجموعی آبادی ساڑھے 25 ملین افراد پر مشتمل ہے۔یہ رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ اِ س سال بھی نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ گزشتہ دو سالوں کی نسبت کم ہے۔اِس کے مقابلے میں، امریکہ کے 52 شہروں کے مرتب کردہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ 2021 میں ملک میں نفرت پر مبنی جرائم میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا تھا۔امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق، نفرت پر مبنی جرم کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص یا جائیداد کے خلاف ایسا مجرمانہ فعل، جس کے مرتکب فرد نے مکمل یا جزوی طور پر کسی کی نسل، مذہب، معذوری، جنسی رجحان یا صنف کے خلاف تعصب کی وجہ سے ایسا عمل کیا ہو۔رپورٹ کے مطابق، حالیہ برسوں میں امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجوہات میں کووڈ کی وبا کے دوران ایشیا مخالف جذبات میں اضافے کے علاوہ 2020 میں امریکہ بھر میں نسلی انصاف کے مظاہروں کے رد عمل میں سیاہ فام افراد کے خلاف دشمنی بھی شامل ہے۔یہ ملک گیر مظاہرے، افریقی نڑاد امریکی جارج فلائیڈ کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر اِن واقعات میں موجود شرح سے اضافہ جاری رہا، تو یہ امریکہ میں نفرت آمیز جرائم میں اضافے کا مسلسل چوتھا سال ہوگا۔سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر برائن لیوِن نے نشاندہی کی کہ موجودہ سال میں اب تک تھوڑی بہت سست روی نظر آئی ہے، لیکن ایسے واقعات ایک سال تک محدود نہیں رہتے،بلکہ یہ کئی سال کے رجحانات ہو سکتے ہیں۔غیر منافع بخش تنظیم “لائرز کمیٹی فورسول رائٹس انڈر لا” سے منسلک اروشا گورڈن نے خبردار کیا کہ نفرت انگیز جرائم کیرپورٹ کئے جانے والے اعداد و شمار، واقعات کی حقیقی تعداد سے کہیں کم ہوتے ہیں۔اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ نفرت سے متعلق جرائم کے اعداد و شمار پر بحث کرنے سیاْنہیں ہمیشہ بہت گھبراہٹ ہوتی ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حقیقی ڈیٹا کی واقعی بہت کمی ہے۔یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار ، نفرت پر مبنی جرائم پر ایف بی آئی کی سالانہ رپورٹ سے پہلے سامنے آئے ہیں، جو اس سال موسم خزاں میں جاری کیے جانے کا امکان ہے۔تاہم ایک ترجمان نے کہا کہ بیورو کے پاس ابھی تک ریلیز کی تصدیق شدہ تاریخ نہیں ہے۔کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک برائن لیوِن نے بڑے شہروں کے موجودہ اعداد و شمار کی بنیاد پر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایف بی آئی کی رپورٹ نفرت انگیز جرائم میں دوہرے ہندسوں کا اضافہ ظاہر کرے گی۔مختلف سروے رپورٹس نے نشاندہی کی ہے کہ اِس سال امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والوں میں سیاہ فام، یہودی، جنسی اقلیتیں اورلاطینی امریکی شامل ہیں، جب کہ پچھلے سال کی نسبت ،کم از کم ملک کے کچھ حصوں میں، ایشیائی امریکیوں پر حملوں میں کمی واقع ہوئی۔ ایشیائی امریکیوں پر تعصب پر مبنی حملے، جو پچھلے سال ریکارڈ سطح تک بڑھ گئے تھے، کئی بڑے شہروں میں کم ہوئے، جیسے نیویارک میں ایسے واقعات کی تعداد میں 48 فیصد اور لاس اینجلس میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی۔تاہم لیوِن نے نوٹ کیا کہ ایشیا مخالف نفرت انگیز جرائم اب بھی بلند سطح پر ہیں،تاہم 11 ستمبر 2001 کے بعد 2002 سے مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم میں ریکارڈ سطح پر کمی آگئی۔ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ سال کے دوسرے نصف کے دوران مجموعی طور پر نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔اِ س سال نومبر میں امریکی نصف مدتی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سال کے آخر میں پْر تعصب واقعات میں نیا اضافہ ہو سکتا ہے۔اروشا گورڈن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے قریب اکثر نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ اس لئے دیکھا جاتا ہے ، کیونکہ سیاسی بیان بازی زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔کووڈ 19 وباکے دوران ایشیائی مخالف حملوں میں اضافے نے گزشتہ سال کانگریس کو نفرت پر مبنی جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون سازی کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور مئی 2021 میں “کووڈ ٩١ ہیٹ کرائمز ایکٹ” پر صدر جو بائیڈن کیدستخط کیبعد اْسے قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔ جب کہ محکمہِ انصاف میں ایک نئی پوزیشن بنائی گئی، تاکہ کرونا وائرس کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم کے جائزے کو تیز کیا جا سکے۔اِس قانون کی پہلی سالگرہ کے موقع پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں محکمہ انصاف نے کہا کہ جنوری 2021 سے اب تک 40 سے زائد افراد پر اس وبائی مرض سے منسلک نفرت انگیز جرائم کا الزام عائد کیا جا چکا ہے۔وائٹ ہاؤس کی ڈومیسٹیک پالیسی کی مشیر سوزن رائس نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ اِس سال ستمبر میں صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں گے ، تاکہ جمہوریت اور عوامی تحفظ پر نفرت پھیلانے والے تشدد کیمضر اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ سوزن رائس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ میں نفرت کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہونی چاہیے ، خاص طور پر جب نفرت تشدد کو ہوا دیتی ہے، جو امریکہ کے کئی شہروں میں دیکھی گئی۔