عورت اور اسلام !!!

0
32

اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے مطابق مارچ خواتین کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ قرارداد کو منظور کی گئی، خواتین نے اپنے حقوق کے حوالے سے میں پہلی آواز بلند کی ، اور ریکارڈ کے مطابق یہ مارچ کی آٹھ تاریخ تھی۔ آگے چل کر یہ آواز تو انا ہو گئی اور بالاخر اس کی صدائے بازگشت اقوام متحدہ میں سنی گئی اور یوں ایک دن عالمی سطح پر خواتین کا دن قرار پایا۔ یہ تو ہے خواتین کا عالمی دن منانے کا تاریخی پس منظر ، لیکن اسلام اس بات میں تاریخی اعتبار سے ثابت شدہ اولیت اور سبقت کا حامل ہے ، خطبہ حج الوداع جسے اپنے مشمولات کے لحاظ سے منشور انسانیت کہنا زیادہ صحیح ہے اس میں حضور ۖ نے عورت کے بارے میں اپنے سامعین مخاطبین اور متبعین کو واضح ہدایات عطا فرمائیں ، گویا یورپ، افریقہ اور امریکہ میں اٹھنے والی تحریک کی کل عمر تقریبا ایک صدی ہے جب کہ عورت کی شخصیت ، شناخت، حقوق ، شرف اور احترام کے حوالے سے اسلام کی آواز چودہ سو سال قبل گونجی ، یہ امر نہ کوئی فکری مغالطہ ہے نہ تقریری مبالغہ بلکہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور حدیث وسیرت کی تمام کتابوں میں خطبہ حجتہ الوداع درج ہے۔ آپ نے فرمایا۔
اے لوگ سنو ! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ اس طرح ان پر بھی تمہارے حقوق ہیں عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں پسند نہ ہو وہ کوئی خیانت نہ کریں اور کھلی بے حیائی کی مرتکب نہ ہوں ، تم انہیں اچھی طرح لباس اور خوراک مہیا کرو ان کے بارے میں خدا کا خوف اور لحاظ رکھو تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کی اجازت سے وہ تم پر حلال ہوئیں۔ لو گو میری بات سمجھ لو۔
بلا شبہ عورت دنیا کی مظلوم مخلوق ہے اور اسے کمزور سمجھ کر مختلف علاقوں اور سب سوسائٹیوں میں دبا کر رکھا گیا اس کے شرف کی توہین کی گئی ، اس کو بدلے اور انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اس کے مالی وقانونی حقوق پامال کئے گئے ، اسے دوسری جائیداد کی طرحلائق تقسیم و انتقال سمجھا گیا ، اور غیرت کے نام پر اس کا خون بہایا گیا ، یہ سب تاریخی حقائق و مشاہدات ہیں لیکن اسلام نے پہلی بار عورت کو مرد کی طرح ایک مکمل شخصیت اور سوسائٹی کے کارآمد فرد کی حیثیت سے تسلیم کیا ، اس کے مالی مفادات اور قانونی حقوق کا تحفظ اور عائلی و خاندانی فرائض کا تعین کیا ، یہ کھلے حقائق ہیں اور انکی تصدیق تاریخ کے اوراق ، قرآن وحدیث کی ہدایات اور سیرت وفقہ کے صفحات سے بہ آسانی کی جاسکتی ہے۔ ایک کالم ان حقائق و واقعات اور دلائل و تفصیلات کا ظاہر ہے قطعا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اشارات پر اکتفا کرنا ضروری ہے لیکن یہ اشارات وہ سنگ میل ہیں جو تاریخ کی شاہراہ پر نصب ہیں اور ہر منزل کا واضح پتہ دے رہے ہیں مرد کی طرح عورت کا آغاز اس کی پیدائش سے ہوتا ہے اور یہیں سے بات چلتی ہے۔
عرب کے جاہلی دور میں بیٹی کی پیدائش منحوس سمجھی جاتی تھی مگر اللہ تعالی نے بیٹے اور بیٹی کی پیدائش کو نعمت یا نحوست نہیں بلکہ اپنی حکمت قرار دیا یعنی کسی کے ہاں بیٹا ہو تو کوئی شرف نہیں اور بیٹی ہو تو کوئی تو ہیں نہیں یہ سرا سر خدائی حکمت اور معاشرتی ضرورت ہے تا کہ نسل انسانی آگے بڑھے۔
محمد رسول اکرم ۖ نے بیٹی کو ماں باپ کے لئے خدا کی رحمت اور قیامت کے دن وسیلہ شفاعت و مغفرت قرار دیا ہے۔
جب بیٹی جوان ہوتی ہے اور شادی کی عمر کو پہنچتی ہے تو اسلام نے نکاح میں لڑکی کی رضا مندی کو ضروری قرار دیا ہے ۔ ایجاب و قبول کا یہی مطلب ہے ورنہ نکاح دینی اعتبار سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔
اسلام نے حق مہر کو عورت کا شخصی حق قرار دیا ہے اور مرد حق مہر کے بغیر کسی عورت سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ اور نہ ہی مرد حق مہر دینے سے انکار کر سکتا ہے نہ اس کو روک سکتا ہے اور نہ غضب کر سکتا ہے تا آنکہ عورت خود اس کی اجازت نہ دے۔
عرب کی جاہلی قدیم مسیحی اور ہندو سوسائٹی میں عورت کو مرد کے پاں کی جوتی سمجھا جاتا تھا مگر قرآن مجید نے عورت کو مرد کا اور مرد کو عورت کا لباس قرار دیا ، یعنی جز ولا ینفک اور ایک دوسرے کی ضرورت اور ہمراز و دمساز ، کون سا آدم زاد ہے جو لباس کے بغیر رہتا ہو، پتھر اور غاروں کے زمانے کی بات اور ہے۔
مرد کو عورت کے نان نفقے کا مکمل ذمہ دار قرار دیا گیا اس میں کوتاہی کی صورت میں مرد دنیا میں قانونی طور پر ذمہ دار اور آخرت میں اخلاقی طور پر جواب دہ ہے۔
مرد کو جس طرح طلاق کے ذریعے عورت سے علیحدگی کا حق دیا گیا اسی طرحاسلام نے عورت کو خلع کے ذریعے مرد سے علیحدگی کا حق تفویض کیا۔ جاہلی دور میں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا اسلام نے بیٹی کی پرورش کو ماں باپ پر لازم اور فرض قرار دیا۔ مرد جو کمائے اس میں عورت کا حق ہے اور عورت اگر کمائے یا ماں باپ اسے کچھ دیں تو اس میں مرد کا کوئی حق اور حصہ نہیں ۔ یہ بات قرآن ، حدیث اور فقہ میں واضح طور ملتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here