ہر لکھاری جانتا ہے کہ اُسے کچھ ایسا نہیں لکھنا جو اُسے خود کو اور پڑھنے والوں کو سکون نہ دے سکے۔ اور اس کے جذبات آسانی سے پڑھنے والوں کو منتقل ہوسکیں جن سے وہ لطف اندوز ہوسکے اور فکر پیدا کرے یہ بات پرندوں میں بھی ہے کہ چڑیا اس لئے نہیں چہچہاتی کہ وہ جانتی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ گاسکنے کا عمل رکھتی ہے اور سننے والے اُسے پسند کرتے ہیں۔ کچھ جانور ایسے ہیں جن کے آواز نکالنے پر لوگ کانوں پر انگلیاں رکھتے ہیں اُن میں گدھا اوّل ہے اور کچھ ایسے انسان ہیں جو سیاست دانوں کے بھیس میں آکر اپنے عہدوں کو فائدہ اٹھاتے ہیں ان میں پاکستان کا وزیراطلاعات عطا تارڑ ہے۔ شاید اس کی ماں نے لڑکپن میں بتایا ہو کہ ”بیٹا اگر کوئی اچھی بات نہ کہہ سکو تو منہ کو بند کرکے رکھا کرو” مگر یہ اس کی مجبوری ہے کہ وہ وزیراطلاعات بنایا گیا ہے اور جب بھی منہ کھولتا ہے گدھے کی مانند دولتیاں جھاڑتا ہے لوگ جانتے ہیں اور فوراًTVکا ریموٹ استعمال کرتے ہیں ساتھ میںF.Uبھی کہتے ہیں کہ کوئی نہ سنے اور اب حال یہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دانوں، صحافیوں، مولویوں اور سوشل میڈیا کے جانبازوں کے لئے کیا اچھی بات لکھیں کوئی اچھی بات نہیں ملتی ہر بات میں چبھن اور بے ہودگی ہے اور ہم مجبور ہیں۔ لیکن پریشان نہ ہوں پاکستان بمقابلہ امریکہ بات کریں تو اب یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ سوچتے ہیں جائیں تو جائیں کہاں۔ یہاں کی سیاست وڑھ گئی اور اس کے ساتھ سیاست دان بھی وڑھ گئے مطلب جو ہیں وہ بے سرے اور بے اثر جو امریکہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں انہیں کوئی روکنے والا نہیں اگر تھا یا ہے تو صدر ہوتا ہے جو خود اچھے کام کرتا ہے جو عوام کی فلاح وبہبود کے ہوں۔ لیکن ایسے صدر بھی وڑھ گئے اگر نہیں وڑھے تو جاتے جاتے امریکہ کا نقشہ بگاڑ کر جارہے ہیں اور اپنے پیچھے کبھی ختم نہ ہونے والا دھاندلی اور خوشامدوں کا سلسلہ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ دن کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں اور ان میں سے بارہ گھنٹے آنکھ کان اور دماغ کا استعمال رہتا ہے۔ ہم نے انسانوں میں پنہاں انکی صلاحیتوں کا جائزہ لیا ہے۔ پاکستان امریکہ اور دنیا بھر میں ان شخصیات کا کہ جنہوں نے تاریخ بنائی اور یادیں چھوڑ کر چلے گئے وہ اپنے لئے کچھ لے کر نہیں گئے۔ لیکن دوسروں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ زندگی گزارنے کے طریقے، دوسروں کو خوش رکھنے کی جستجو، اپنے سے کم تر کی مدد، ذہن پر زور ڈالیں تو انکے نام سامنے آتے رہینگے۔ اگر آپ فلموں کے شائقین ہیں تو دلیپ کمار، امیتابھ، گرودت اگر سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں تو لیڈروں میں نیلسن منڈیلہ، ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، مالکم ایکس، چی گوارا، جون ایف کینڈی، آئزنن پاور، ابواکلام آزاد، لیاقت علی خان، جو جاتی دنیا تک یاد رہینگے۔ یہ موجودہ لوگوں کی تاریخ ہے جو ہمارے پیارے رسول محمدۖ سے شروع ہوتی ہے جو اتنے کم عرصہ میں زندگی گزارنے کا سلیقہ بتا گئے کہ مغرب نے اُن کے بنائے اصولوں پر اپنے اپنے ملکوں میں حکومتوں کا نظام بنایا۔ مگر افسوس ہم بھول گئے کہ جو نظام مغرب میں ہے وہ کہاں سے آیا ہے۔ اگر ادیبوں اور شاعروں کی بات کریں تو ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی بڑے بڑے نام آئے لیکن آج کے دور میں کیسے یاد ہے کہ شوکت صدیقی کون تھا اور قرة العین حیدر کہاں کی تھیں۔ آگ کا دریا میں انہوں نے ہندوستان کی تاریخ ناول کے ہیرو گو تم نیلامبر کی زبانی اس دور تک پہنچائی اور یہ ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے معاشرے کی لیکن پاکستان میں ان پر پابندی لگا دی گئی اور ادب کا یہ اثاثہ ہندوستان چلا گیا۔ ہمارا ملک ہر طرح کے فنکاروں، لکھاریوں اور شاعروں سے مالا مال تھا اور ہے لیکن سیاست اور مذہبی رہنمائوں نے اس کا وجود ختم کر دیا ہے۔ فنون لطیفہ کی موت واقع ہوچکی ہے۔
امریکہ میں صرف سیاست میں خرابی آئی ہے کہ صحافت جو معاشرے میں سمجھائو اور تبدیلی لا سکتا ہے جو عوام اور ملک کے لئے بہتر ہو غلط راستے پر چل پڑا ہے اور اس کی حالیہ مثال7اکتوبر2023کے بعد سے اب تک غلط اور مضر راستے پر ہے جس میں ملک اور عوام کے لئے کوئی بہتری نہیں وقت کے ساتھ جس طرح دریا خشک ہوجاتا ہے اور رخ بدل لیتا ہے صحافت ملک بدل رہی ہے سب سے بڑا جھوٹ7اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی بابت تھا۔ یہ خبر بغیر کسی تصویر کے تھی کہ صرف ایک تصویر دیکھنے کو ملی کہ ایک بیابان جگہ میں پرانی موٹر کار جس کا دروازہ کھلا تھا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اور ہم تلاش کرتے رہے750لاشوں کو اور اسٹیج کی تباہی کو یہ بات میڈیا جب سے اب تک پھیلا رہا ہے تاکہ اسرائیل کا غازہ کو تباہ کرنے کا جواز بن سکے کہ یہ جنگ ہے حماس اور اسرائیل کی جب کہ یہ جنگ نہیں بلکہ قبضہ اور غازہ کو زمین بوس کرنے کی۔
حال ہی میں کمالہ ہیرس اچھلتی کو دتی اسٹیج پر آئیں اور منہ پھاڑ کر بولیں حماس نے ایک ہزار اسرائیلی شہریوں پر حملہ کرکے دہشت گردی مچائی۔ میڈیا میں سے کسی نے اس کی تصیح نہیں کی اس زیادہ بڑی بددیانتی کیا ہوگی پھر دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے ور سے نتن یاہو تو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہیں اور پچھلے ہفتے وہ جوائنٹ سیش(ڈیموکریٹ، ریپبلکن) کو خطاب کرکے اسرائیل روانہ ہوگیا۔ تقریباً تمام سیاست دان بچوں کی طرح کلاس میں بیٹھے اس کی غلط بیانی اور انسانیت سوز حرکتوں پر تالیاں بجاتے رہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں امریکہ جو جمہوریت پر قائم تھا اور انسانی حقوق کا پابند رہا ہے پچھلے سات مہینوں میں اپنے تیور بدلے گا۔ ایک بار پھر سوچنا پڑتا ہے اسرائیل امریکہ کا ضرورت مند ہے یا امریکہ کو اسرائیل کی ضرورت ہے اگر عوام اسرائیل کی سفاکیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر احتجاج کرتے ہیں اور جنگ بندی کے نعرے لگاتے ہیں تو سیاست داں کہتے ہیں یہANTI SEMETICہیں۔ اور میڈیا صرف یہ بات ہی دکھاتا ہے جو حقیقت ہے وہ دنیا کے سامنے ہے امریکہ کب جنگی حالت میں نہیں رہا کوریا، ویٹ نام، افغانستان، عراق، ایران اور اب فلسطین اور یوکرین پر ڈالرز جنگ کی نذر کر رہا ہے جس کا خاتمہ دنیا میں امن کو چیلنج ہے۔ افغانستان میں جب روس قبضہ کر رہا تھا تو ایک صحافی نے ایک دس بارہ سال کے بچے کے ہاتھ میں کلاسکوف دیکھ کر پوچھا تھا تم لوگ ہر وقت جنگ کیوں کرتے ہو۔ بچہ کا جواب تھا یہ ہمارے خون میں ہے لگتا ہے امریکہ کو یہ بات پسند آئی اور اب امریکہ کہہ سکتا ہے۔ جنگین کرنا ہماری سیاست ہے دوسرے معنوں میں ہم جنگیں کرواتے ہیں اور ڈالرز ٹپاتے ہیں اور اب خود تیلی حالت میں ہیں کہ کہ مہنگائی مہنگائی ہر طرف اور ہر کاروباری شعبہ کی شاخ پر مہنگائی کا الّو بٹھا دیا گیا ہے اور یہ مہنگائی، فصلوں کے خراب ہونے یا شاہ فیصل کی دھمکی کی وجہ سے نہیں جس میں کہا تھا ہم پیٹرول کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرینگے۔ ایران پر پابندی لگا کر ایک سیاست دان نے انکشاف کیا ایران روزانہ٢سو ملین بیرل آئل بیچ رہا ہے۔ امریکہ اور سعودی عربیہ٧ملین بیرل روزانہ آئل ڈرل کر رہے ہیں۔ لیکن امریکی عوام پر قیمتوں کا بوجھ ہے۔ کیوں؟ جیسا کہ لکھ چکے ہیں کہ امریکہ میں ہر سمت میں مہنگائی، اور کرپشن بڑھ گیا ہے اور روکنے والا کوئی نہیں۔ دو سینیٹرز، حکیم جعفری اوچک شومر بائیڈین کی نامزد کردہ صدر کی امیدوار کمالہ ہیرس کی گود میں ہیں۔ اور میڈیا کی نظر میں آنا”فانا” میں امریکہ میں صدارتی انتخاب میں امیدواروں کا گراف الٹا دیا گیا ہے۔ABCکی اطلاح یہ ہے کمالہ کا گراف48اور ٹرمپ کا39ہوگیا ہے جو اتنا ہی غلط ہے جیسے اسرائیل کہہ رہا ہو۔ فلسطینی حملہ آور ہیں اسرائیل کی مضبوط لابیAIPACنے شاید طے کرلیا ہے کہ امریکہ کو لوٹنے میں کمالہ ہیرس، ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر ہے۔ عوام کو سوچنا پڑے گا کہ کہ پچھلے چار سال میں بائیڈین اور کمالہ کی حکومت کا خمیازہ کیا مزید اور4سال برداشت کرنا پڑے گا دوبروں میں سے ایک اچھے کا چنائو کرتا ہے۔ امریکی مسلمان ووٹروں کو، اور ٹرمپ بہتر ہے ووٹ کا استعمال کرین خدارا!!!۔
٭٭٭٭٭