”ٹیکستان ”
ہمارے حکمرانوں نے ملک پاکستان کو ”تیکستان” میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ، ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ، پنجاب حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے عوام پر کوڑا ٹیکس بھی عائد کر دیا ہے ، حکومت ٹیکسوں کی پالیسی تو ترقی یافتہ ممالک والی نافذ کر رہی ہے لیکن سہولیات ویسی مہیا کرنے سے قاصر ہے ، امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اگر ٹیکسوں کی بھرمار ہے تو وہاں کی حکومت ہر ہفتے مستحقین کو مفت راشن تقسیم کرتی ہے ، ادویات،کھانا دیگر ضروری اشیا مفت فراہم کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور وفاقی حکومت میں شامل اس کی اتحادی جماعتوں نے عام انتخابات سے پہلے عوام سے کیے گئے وعدے بھلا کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تمام جائز ناجائز شرائط کو مانتے ہوئے عوام پر ناروا بوجھ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ یکم جولائی سے نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایک تو حکومت کی طرف سے عوام کو بہت سے نئے ٹیکسوں کا تحفہ دیا گیا ہے اور دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے تو بہت سے کیے جارہے تھے لیکن حقیقت ان دعوووں کے بالکل برعکس ہے اور ٹیکسوں کی بھرمار سے یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت کو عوام کا ہرگز احساس نہیں ہے۔ یہ صورتحال عوام کے لیے تو پریشانی کا باعث بنے گی ہی لیکن اس کے ردعمل میں جو کچھ ہوگا وہ حکومت کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ن لیگ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹاتے ہوئے عوام کو بہت سے سبز باغ دکھائے تھے، سولہ مہینے کے دوران شہباز حکومت کی جو کارکردگی رہی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد جب دوبارہ محمد شہباز شریف وزیراعظم بنے تو انھوں نے پھر عوام کو حوصلہ دینے کے لیے کئی وعدے کیے لیکن تاحال ان میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ کسانوں پر بوجھ ڈال کر گندم سستی کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ حکومت جس دن پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی لائے گی عوام کو ریلیف تب ملے گا۔ وزیر خزانہ بار بار نان فائلر نان فائلر کی رٹ لگاتے ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اسمبلیوں اور سینیٹ میں بیٹھے ہوئے فائلرز کیا اپنی اصل ا?مدن اور اثاثوں کے مطابق ٹیکس دے رہے ہیں؟ اگر قومی خزانے پر واقعی بوجھ کو کم کرنا مقصود ہے تو پھر عوام کو دی جانے والی چند کروڑ کی سبسڈی ختم کرنے کی بجائے اشرافیہ کو دی جانے والی اربوں کھربوں روپے کی مراعات و سہولیات ختم کی جائیں۔ حکومت عوام پر ناروا بوجھ ڈال کا ان کے غضب کو دعوت دے رہی ہے، یہ سلسلہ جتنی جلد ممکن ہوسکے بند ہونا چاہیے۔پاکستان میں ٹیکس کا نظام طویل عرصہ سے بحث کا موضوع رہا ہے جس میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ غیر متناسب طور پر عام آدمی کو امیروں سے زیادہ نشانہ بناتا ہے۔ پٹرول اشیائے صرف اور دیگر ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ پہلے سے مشکلات کا شکار تنخواہ دار طبقے اور کارپوریشنوں پر بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ہمیشہ کی طرح پالیسی سازوں نے انہی گروپوں پر ٹیکس لگایا ہے جو پہلے ہی قومی خزانہ بھرنے کے لئے اپنا بھر پور حصہ ڈال رہے ہیں پالیسی سازوں کے پاس سوچنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف موجود ہے پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف بڑے با اثرشعبے ٹیکسزمیں رعایت اور نرمی سے لطف اندوز ہور ہے ہیں ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے پاکستانی عوام کی گردن معاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کی واضح یاد دہانی ہے۔امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو با اثر افراد کی حمایت کرتی ہے اور عام آدمی کو نظر انداز کر دیتی ہے سرکاری ملازمین کے لئے یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر سال اس کا تنخواہ کچھ نہ کچھ بڑھ جاتی ہے لیکن نجی شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخوا ہوں میں اضافہ کو کون یقینی بنائے گا؟ اس ضمن میں کبھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے آئی ایم ایف کا نشانہ ہمیشہ عوام ہی بنتے ہیں وہ سبسڈی ختم کرنے پر زور دیتاہے یا پھر عام استعمال کی اشیائ پر ٹیکس لگانے یا بڑھانے کی شرط رکھتا ہے۔تاجروں کی ایک قابل ذکر تعداد کا خیال ہے کہ مالی سال 25 کے لیے حکومت کا نیا مالیاتی منصوبہ کاروبار کے لیے موزوں نہیں ہے جب کہ پانچ میں سے دو کاروبار مہنگائی کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔پہلی سہ ماہی کی طرح، قیمتوں میں اضافہ سب سے زیادہ بڑا مسئلہ تھا جسے پانچ میں سے تقریباً دو تاجر، 37 فیصد، چاہتے ہیں کہ حکومت حل کرے۔مہنگائی، جو گزشتہ ماہ جون میں 12.6 فیصد تک بڑھ گئی تھی، اب کم ہور رہی ہے اور صارفین کی قوت خرید میں مسلسل کمی کر رہی ہے۔سروے کے مطابق، نصف سے زیادہ، 54 فیصد، پاکستان کے تاجروں کا خیال ہے کہ موجودہ پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت معیشت کو سنبھالنے میں پچھلی حکومت سے بدتر ہے لیکن اب عوام کے صبر پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ، کسی بھی وقت لاوا پہاڑ سے پھٹ پڑے گا، بنگلہ دیش کی تازہ مثال سب کے سامنے ہے لیکن اگر پاکستان میں ایسی صورتحال ہوئی تو حالات اس سے کہیں زیادہ بدتر ہوں گے ، ابھی بھی وقت ہے حکمرانوں کو چاہئے کہ خواب غفلت سے بیدار ہوں اور ملک کو تباہی کے راستے سے ہٹائیں ۔
٭٭٭