تلخ مگر حقیقت!!!

0
40
شبیر گُل

کہا جاتا ہے کہ جب چنگیز خان نے نیشاپور میں خون کی ندیاں بہا دیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا، تو اس کے بعد وہ اپنی فوج کے ساتھ ہمدان کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں کے لوگوں پر خوف کے سائے چھا گئے۔ لوگ لرزتے دل اور سہمے چہروں کے ساتھ اس کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔ چنگیز خان نے سارے شہر کو ایک وسیع و عریض میدان میں جمع کیا، جہاں ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اس نے بلند آواز میں اعلان کیا۔ میں نے سنا ہے کہ ہمدان کے لوگ نہایت سمجھدار، زیرک، اور فہم و شعور میں بے مثال ہیں۔ ھمدانیوں کی معاملہ فہمی زبان زد عام ہے ، اور تمہارے بارے میں مشہور ہے ھمہ دانی و ھیچ ندانی اتنے زیرک ھو سب کچھ جانتے ہو ئے بھی کچھ نہیں جانتے ، چنگیز خان کی نظریں میدان میں کھڑے لوگوں پر جم گئیں اور اس نے کہا:
میں تم سے ایک سوال کروں گا، جس کا جواب اگر صحیح اور معقول ہو، تو تمہیں امان ملے گی، تمہیں تحفظ ملے گا، لیکن اگر تم میرے سوال کا جواب غلط دیا، تو یہی میدان تمہارا آخری ٹھکانا بنے گا۔ تمہاری تقدیر یہاں فیصلے کی محتاج ہے، اور اگر تم غلط جواب دو، تو اس میدان میں تم سب کو تہہ تیغ کر دوں گا۔ اس کی آواز میں وہ دلی دھاڑ تھی جو ہر شخص کے دل میں خوف کی لہر دوڑاتی۔ اس میں چنگیز خان کے ارادے اور اس کے حاکمانہ انداز کو واضح کیا گیا ہے، اور یہ اس کے سوال کی سنگینی کو بھی ظاہر کرتا ہے پھر وہ رکا، لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا: کیا میں خدا کی طرف سے آیا ہوں، یا اپنی مرضی سے آیا ہوں ؟ مجمع ساکت تھا۔ کوئی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ جانیں لبوں پر تھیں، لہٰذا ہمدان کے دانشور، علما، بزرگان، پڑھے لکھے لوگ اور اہلِ حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ وہ چنگیز خان کے سوال کا مناسب جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سب کے چہرے پر خوف اور اضطراب تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سوال محض ایک امتحان نہیں، بلکہ پورے شہر کے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا تھا ،شہر کے بڑے اور اہلِ دانش سوچ و بچار میں غرق تھے، ایک طرف شہر کی تقدیر کا سوال تھا اور دوسری طرف خوف کی ایک گہری لہر۔ اس دوران اچانک ایک چرواہا جواب دینے کے لئے کھڑا ہوا جس کی آنکھوں میں خوف کے بجائے بصیرت تھی، ہجوم سے آگے بڑھا۔شہر کے لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی تھیں، ہر کسی کے دل میں یہی سوال تھا کہ یہ چرواہا چنگیز خان کے سوال کا کیا جواب دے گا؟ چنگیز خان نے اسے غور سے دیکھا، پھر اپنی گرجدار آواز میں کہا: اگر میں جواب سنوں گا، تو اسی سے سنوں گا!چرواہے نے نہایت دلیری سے چنگیز خان کی طرف دیکھا اور کہا: نہ تو تم خدا کی طرف سے آئے ہو، اور نہ ہی اپنی مرضی سے آئے ہو ۔ تمہیں ہمارے اعمال یہاں لائے ہیں!جب ہم نے اہلِ عقل و دانش کو نظرانداز کیا، اور بیوقوفوں، جاہلوں، اور چاپلوسوں کو عزت، اختیار اور قیادت دی، تو پھر یہی دن دیکھنا تھا۔ تم ہماری نادانی، ہماری بے بصیرتی اور ناانصافی کا نتیجہ ہو! چنگیز خاموش ہو گیا۔ شاید اسے بھی اس سچائی کی گہرائی نے ایک لمحے کو ہلا دیا تھا اور چنگیز خان نے سب کو جانے دیا ۔قوموں پر چنگیز جیسے طوفان آسمان سے نازل نہیں ہوتے، یہ ان کے اپنے ہاتھوں کے بوئے ہوئے بیجوں کا پھل اور مکافات عمل ہوتے ہیں۔ مکافات عمل سے کبھی غافل نہ ہونا گندم بوئے گے تو گندم کاٹوگے جو بوگے تو جو کاٹو کے جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ اگر آج بھی ہم نے عقل و علم کو مقام نہ دیا، انصاف اور صداقت کا پرچم نہ تھاما، تو چنگیز کے سائے پھر سے لوٹ آئیں گے۔ چاہے نام کچھ بھی ہو، شکل کچھ بھی ہو۔ قومیں بندوق سے نہیں، بصیرت سے باقی رہتی ہیں۔اقتدار ملتے ہی یہ لوگ چنگیز خان بن جاتے ھیں انہیں آخرت میں جوابدہی کا ۔ حشر کی ہولناکیوں کا احساس نہیں رہتا۔ اے اللہ حشر کی شرمندگی،جہنم کی گرمی سے ہماری حفاظت فرما! آمین ۔
معزز قارئین !۔ ھم نے کبھی نہیں سوچا کہ جاہل ،ان پڑھ ، بدمعاش ،چور اچکے پارٹیاں بدل بدل ھم پر مسلط کیوں ھوتے ہیں؟ کیا ھم نے کبھی سوچا ھے کہ جو کل پیپلز پارٹی میں پھر ن لیگ میں۔اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہمدردیاں تبدیل ۔مشرف کے ساتھی بنے اور پھر وہی متعفن ذہنیت، وہی سیاہ و مکروہ چہرے ۔وہی چور لٹیرے ،آج پی ٹی آئی میں آکرکوئی انقلاب لا سکتے ہیں ؟ کیا کرپشن کا بادشاہ نواز شریف ،سینکڑوں ارب کا نادہندہ شہباز شریف اور مسٹر ففٹی پرسنٹ زرداری قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں؟ اگر آج عمران خان یہ کہتا ھے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک ھیں۔ یہ بات تو گزشتہ چالیس سال سے جماعت اسلامی کہہ رہی ھے۔ لیکن اندھی ،گونگی اور جاہل قوم کو جماعت اسلامی کی آواز سنائی نہیں دیتی کیونکہ جماعت اسلامی کے پاس اسٹیج پر ناچنے والے کنجر ہیں اور نہ بھنگڑے ڈالنے والی بد تہذیب اور آزاد خیال عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ عمران کے لئے خاوند اور بچے چھوڑ سکتی ہیں ۔ ایسی لعنتی بیہودہ عورتوں نے کبھی رسول اقدس کے لئے خاوند اور بچے چھوڑنے کی بات کی ہے اور سوشل میڈیا پر مغلظات بکنے والے ، بد تہذیب اور بدنسل ہی ھوسکتے ہیں ۔ جن کا نہ کسی تہذیب اور نہ ہی اخلاقی روایات سے کوئی تعلق ہے۔ کیا قوم کو چھچھورے لیڈر، بدمعاش جرنیل چاہئیں جنہوں نے ملک کو برباد کیا ہے۔ کیا جماعت اسلامی نے ستر سال قوم کی خدمت نہیں کی ۔ نظریات کا تخفظ نہیں کیا۔دین کا دفاع نہیں کیا ؟ دراصل قوم ننگ ،دھڑنگ اور بے حیائی کے کلچر کے پروموٹروں کو چاہتی ہے۔ چوروں، ڈاکوئوں اور بے دین مافیا کو چاہتی ہے اگرہم عقل و شعور رکھتے ہیں۔ ایمانت و دیانت اور سچائی کو چاہتے ہیں تو ھمیں چاہئے کہ ووٹ کی ایمانت ادا کرنے سے پہلے اپنے ضلع کے سیاسی گماشتوں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کل یہ کون تھے ؟ کس کے ساتھ تھے؟ ان کے اثاثے کتنے تھے۔ ؟آج یہ کیا ھیں؟ یقینا یہ آپکو انسان کے بچے کم اور حیوانیت سے بھرپور شیطان نظر آئینگے۔ جاہل قوم کی اکثریت کی سوئی انہی ابن الوقت قومی درندوں اور منافقوں پر اٹکی رہے گی۔ کیونکہ ھم اندر سے شکست خوردہ اور اللہ پر توکل کی بجائے، قومی مجرموں پر توکل کرتے ہیں۔ مسجد کی پہلی صف ، اونچی شلوار، ماتھے پر محراب اور سپورٹ سیکولر جماعتوں اور منافق عناصر کو۔ ؟ یہ سبھی ایک دوسرے کو چور کہتے ھیں ۔ پھر ان چوروں کو اپنی پارٹیوں میں بھی لیتے ھیں۔ ملک لوٹنے ، مقروض کرنے اور اسے کمزور کرنے والی تینوں بڑی جماعتیں ھیں۔ معزز قارئین ! آئی ایم ایف سے نہ میں نے، نہ میرے دادا خضور اور نہ ہی میرے والد محترم نے قرض لیا ھے۔ نہ میرے کسی دوست احباب اور نہ کسی رشتہ دار نے آئی ایم ایف سے قرض لیا ھے۔ نہ بینکوں سے قرض نا معاف کروائے ھیں۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ گزشتہ تین دھائیوں سے جو لوگ حلال کما رہے ھیں۔ انکے گھر چھوٹے اور پاکستانی ججز، بیوروکریٹس، جرنیل اور سیاستدانوں کے گھر بڑے بڑے، بڑی بڑی بلڈنگز اور شاپنگ مالز ھیں۔ کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ مال کہاں سے بنایا ھے۔ یا کوئی ایسا ایماندار حلالی جج یاآفیسر نہیں پاکستان کو نصیب نہیں ھوا جو ان بددیانت چوروں سے ملکی دولت کو واپس لاسکے۔ میری اللہ رب العزت سے دعا ھے کہ جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ھے۔ جنہوں نے آئی ایم ایف کے قرضے کھائے ھیں ۔ جنہوں نے بینکوں سے قرضے معاف کروائے ھیں جنہوں نے ھماری نسلوں کو مقروض کیا ھے۔ اے اللہ انہیں برباد فرما،انہیں نشان عبرت بنا،ھمیں شعور عطا فرما کہ ھم انتخاب کے وقت عقل وشعور کا استعمال کریں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here