محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج ایک عجیب و غریب اور تسلسل سے ہٹ کر موضوع کا انتخاب کیا ہے جس میں عوامی لٹیروں کو کس طرح عوام کا استحصال کرنے پر روشنی ڈالی جائیگی ۔ انسان کسی بھی ملک و معاشرے میں رہتا ہوں اس کو وہاں کے مروج قوانین اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کی پابندی لازمی کرنی پڑتی ہے اور یہ مہذب ہونے کی علامت بھی ہے، مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں عوام اس کے خلاف چلنے کی کوشش کرے یا چلے جبکہ عملی طور پر یہ تقریبا ناممکن امر ہے اس کی وجہ عوام طاقت ہے لیکن اس کو منتشر کردیا گیا ہے ۔زبان ، علاقہ ، مذہب ، اقوام اور دیگر نام لیکر اور نعرے دے کر لیڈر ان سے ان کا تشخص اُجاگر کرنے کے نام پر جو کھیل کھیلتے ہیں ،اس سے وہ جس وقت جانکاری حاصل کر سکنے کی صلاحیت اور تجربہ حاصل کرتا ہے اس وقت تک عمر عزیز کا ایک حصہ گزر چکا ہوتا ہے،ہر معاشرے میں انسانی ضرورت روٹی ، کپڑا اور مکان رہا جبکہ دیگر سہولتیں و ضروریات بھی اہم ہیں لیکن ان بنیادی بیان کردہ چیزوں کا حصول کرنے کی جگہ ، پیٹ بھرنے اور تواناکھانا اور تن ڈھانپنے کو کپڑا سب کو چاہئے ۔ مملکت پاک میں یہ سہولتیں بلکہ اب غیر محسوس انداز میں دنیا میں بھی مافیاز کے حوالے آہستگی کے ساتھ ہورہی ہیں ہے ، حیرت کی بات !! پاکستان کے شہر اسلام آباد میںماضی قریب میں رہائشی اسکیم شروع کی گئی جس کی قیمت کا تعین ہوا اور قیمت وصول بھی کرلی گئی لیکن وہ زمین یا اس کا قبضہ آج بھی مکینوں کو نہ مل سکا وہ مالکان اس دنیا سے راہی عدم بھی ہوچکے بس اس بنیاد کا حاصل ہونا تھا کہ دیگر بہت سے بلڈرز ذ مافیاز کا جنم ہوا جنہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے بکنگ کے نام پر بڑی وصولیاں شروع کی انسان بیرون ملک غلاموں کی طرح کام کرکے کماتا اور ملک میں ان بلڈرز کے حوالے خون پسینے کا پیسہ کردیا گیا ،شہر میں کنکریٹ کے پہاڑ اس پیسے سے کھڑے ہوئے کچھ پروجیکٹ اچھے بھی تھے قبضہ مل گیا اور رہائش شروع لیکن بھانڈا اس وقت پھوٹا جب ایک کھڑے ٹاور کا غیر قانونی قرار دیکر گرادیا گیا اور یہ عدالت کے حکم پر ہوا یہ سب کیا ہے یہ کیوں ہے اس کا ذمہ دار کون ہے !!؟؟ سب کو معلوم ہے لیکن کسی کی جرات نہیں لکھے یا کچھ بولے جنگل کا قانون ہے جس کا جو دل چاہے رشوت دے اور کرے منظم گروہ مکان کی جعلی فائلیں بناکر بیرون ملک رہائش پذیر لوگوں کے پلاٹ بیچ دیتے ہیں ان کی جائداد کے سودے ہوجاتے ہیں اور دیوانی مقدمات میں قبضہ سچا دعوی جھوٹا ہر عدالت کے احاطے میں موجود وکیل لوگوں کو تیز آواذ اور شیطانی مسکراہٹ سے بتا رہے ہوتے ہیں مظلوم عوام ایسے میں کہاں جائیں کس کو شکایت کریں ان کی کماء عمر بھر کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے کون کھا گیا بلڈرذ کے نام پر ان کا پیسہ کوء جواب نہیں نیسلہ ٹاور کو گرا کر تاریخ رقم ہوء متاثرین کا کیا بنے گا ان کے نقصان کا خمیازہ کون بھرے گا وہ راشی افسران جو خود آرام دہ بنگلوں میں اگلے شکار کی تلاش میں جو خود ان کے جال میں آجاتا ہے مجبوری ہے رہائش چاہئیے اتنا بڑا پلازہ شھر کے بیچوں بیچ بن کر کھڑا ہوگیا کیا اس وقت مجاز افسران سو رہے تھے ؟ کس سے پوچھیں ؟ کس کو الزام دیں ؟ کون ذمہ دار ہے ؟ جو باہر جاکر سرمایہ کاری کرتا رہا اور آخر میں مال سے بھی گیا اور صدمہ میں جان سے بھی گیا یا ناراض ہوکر بیرون ملک چلا گیا ہمیشہ کیلئے کیونکہ اس کے ملک میں موجود مافیاز بھیڑئیے پھر کسی جال کی تیاری کرکے اس کا انتظار کررہے ہیں کب یہ کم بخت واپس آئے اور دوبارہ پھنسے !! حالت یہ ہے لاہور سے متصل نیا شھر آباد کرنے کا اعلان وزیر اعظم کا اعلان اور عدالت کا اس پروجیکٹ کو روک دینا یہ کون سا نیا کھیل چل رہا ہے کون لوگ ہیں اس کے پیچھے !!؟؟ آپ کو جان کر حیرت ہوگی حکومت میں شامل کچھ لوگ ہیں جن کے ہائوسنگ پروجیکٹ ہیں جب نئے شہر کا اعلان ہوا ان کے کاروبار پر اثر پڑا فوری بھاگ دوڑ ہوء اب یہ بات غلط یا درست اس سے سروکار نہیں لاہور شہر کو سپلائی ہونے والی اشیائے خورد ونوش جو زرعی زمین سے آتی ہے اس پر نئے شہر کا قیام غیر قانونی قرار پایا اور شہر بنانے کا کام روک دیا گیا ایک مافیا اس میں ایسا بھی تھا جو لوگوں کی زمینوں کی قیمت کا تعین کررہا تھا !!؟؟ یہ کون ہیں جو بیس تا تیس ہزار مرلہ قیمت پر زمین حاصل کریں اور لوگوں کو وہی زمین پانچ مرلہ ایک کروڑ میں بیچ دیں کوئی ہے پرسان حال جو اس مافیا سے پوچھے یا ہے کوئی نظام جو اس ظلم پر سوال کرے لیکن سوال کوئی کرے تو کس سے کرے !؟؟ ہر مجاز افسر ، جج ، بیوروکریٹ آئینہ کے سامنے کھڑا ہو اور سوال کرے خود سے عجیب بات ہے ہاں خود سے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو یہ نظام دے کر جائے گا کب تک یہ افسر زندہ رہے گا ؟؟!! یہ لوگ خود سے مخلص نہیں ہیں اور جب اقوام خود سے مخلص نہ ہوں غیر اقوام ان کو غلام بنالیتی ہیں اور یہی ہورہا ہے آج وہ دور گیا جب زمین پر قبضہ کرتے تھے آج آپ کو جدید غلام بناتے ہیں !! ویسے ایک سوال ہے آپ مقامی غلامی پسند فرمائیں گے یا بین الاقوامی غلام بننا چاہیں گے ؟؟ اس سوال کو سوچیں شائد آپ کو بہتر غلامی کا کوئی حل نظر آئے (جاری ہے)سید کاظم رضا
٭٭٭