قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ سال کے آغاز پر پاکستان نیوز کی پہلی شہ سرخی وطن عزیز پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کے آغاز اور مستقبل قریب میں اس کے نتیجے میں شدید سیاسی بھونچال کے حوالے سے تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کا یہ کھیل محض نمائشی اور دکھاوے کیلئے ہی ہوتا ہے اور ہمارے گزشتہ کالم کے حوالے سے ہمارا مشاہدہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی تماشہ عوام میں اپنے بھرم کو قائم رکھنے کیلئے برپا کیا جاتا ہے، اندر خانہ یہ سارا ڈرامہ متعینہ سکرپٹ کے مطابق ہی کھیلا جاتا ہے، سکرپٹ رائٹرز اور ڈائریکٹرز کی تحریر و ہدایات کے مطابق سیاسی اداکار اپنا کردار نبھاتے ہیں۔
تفصیل میں جائے بغیر تازہ ترین قسط پر نظر ڈالیں تو سطور بالا میں بیان کردہ ہمارا مؤقف درست لگے گا، جمعہ کے روز سینیٹ میں اسٹیٹ بینک ترمیمی قانون، اپوزیشن کے بھرپور مخالفانہ پروپیگنڈے اور واضح اکثریت کے باوجود نہ صرف منظور ہو گیا بلکہ بہت سے بالواسطہ و بلاواسطہ سوالات کو جنم دینے کیساتھ یہ نشاندہی بھی کر گیا کہ فیصلے کیسے کئے جاتے ہیں۔ غور کیجئے کہ اپوزیشن کے 12 سینیٹرز اجلاس سے غیر حاضر تھے، قائد حزب اختلاف سینیٹ میں شرکت کرنے کی جگہ دو اراکین قومی اسمبلی کے والد کی تعزیت میں مصروف رہے نتیجہ یہی ہوا کہ حکومت اور اپوزیشن کے برابر ووٹ کی بناء پر چیئرمین سینیٹ کے ووٹ سے قانون منظور ہو گیا۔ اس تماشے کی تکمیل پر حکومتی وزراء و ترجمان نے قائد حزب اختلاف کا شکریہ بھی ادا کیا کہ قانون کی منظوری آسان ہوئی۔ محترم قائد حزب اختلاف وضاحتیں دیتے رہے، نوٹس کی تاخیر کو وجہ بناتے رہے حتیٰ کہ اپنے پارٹی چیئرمین کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی پوزیشن سے استعفیٰ بھی دیدیا جو حسب توقع منظور بھی نہیں ہوا۔ بات یہ ہے کہ اسے آئی ایم ایف کی شرائط اور فیصلہ سازوں کی منشاء کے مطابق منظور ہونا ہی تھا بالکل اسی طرح جس طرح منی بجٹ کا منظور ہونا ضروری تھا۔
بات ان دو بلز تک ہی محدود نہیں ہے، ریکارڈ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ 67 ترامیم کی منظوری، انتخابی و نیب ترامیم ہوں یا دیگر ایشوز، اپوزیشن کی مخالفت، شور شرابا، دعوے محض دکھاوے تک ہی رہتے ہیں۔ عملاً پارلیمنٹ میں اپوزیشن کسی بھی معاملے پر کامیاب ہونے سے قاصر ہی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ تو ہر گز نہیں ہو سکتی کہ حکومتی برتری اسقدر مضبوط ہے کہ اپوزیشن کی بالکل نہیں چلتی۔ اس کی وجہ جو کچھ ہے وہ پاکستان کی سیاست سے واقف بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ فیصلے کر لئے جاتے ہیں اور سیاسی ایکٹرز کو اس کے مطابق ہی اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے ابتدائی سطور میں سکرپٹ وہدایات کا ذکر کیا ہے،سکرپٹ میں یہ فیصلہ شدہ ہے کہ حکومتیں اپنی مدت پوری کریں۔
فیصلے کے مطابق موجودہ حکومت کو بھی اپنی مدت پوری کرنی ہے اگرچہ اس دوران بعض نشیب و فراز بھی آئے لیکن فیصلہ سازوں نے تحمل و بردباری سے حالات و معاملات کو سنبھالا دیا اور صورتحال کو برقرار رکھا۔ دوسری جانب اقتدار کے متمنی مخالفین کو اس حد تک آزادی دی گئی جہاں وہ اپنا سیاسی و جود برقرار رکھ سکیں لیکن سرخ لکیر پار نہ کریں۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کا جائزہ لیں تو یہ تصدیق ہوتی ہے کہ سیاست کے کھلاڑی اپنا کھیل اسی حساب سے کھیل رہے ہیں۔ کپتان کی حکومت کے دور میں کئی مرحلے ایسے بھی آئے جو اس کے حق میں نہیں جاتے تھے اور کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن حالات کے پیش نظر اور متعینہ متبادل نہ ہونے کے باعث سلسلہ جاری و ساری رہا ، البتہ چیک اینڈ بیلنس کیلئے اپوزیشن کا وجود بھی ضمنی کنٹونمنٹ اور پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشنر میں محسوس کرا دیا گیا۔
اس تمام تر صورتحال میں ابھی موجودہ حکومت کا ڈیڑھ برس کا وقت باقی ہے، ہم اپنے گزشتہ کالمز میں متعدد بار اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ کپتان کی حکومت نے ملک و عوام کی بہتری کیلئے کئی طویل المدت منصوبوں بشمول معیشت کی بہتری اور کامیاب خارجہ پالیسی کے مثبت اقدامات کئے ہیں لیکن مہنگائی کے طوفان اور کرپشن کے تدارک و خاتمے کیلئے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس مخالفت کیلئے یہی دو موضوعات رہ گئے ہیں اُدھر کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کا سارا زور شریفوں اور زرداری کی کرپشن پر ہے، پاکستان میں تو اب عام آدمی سے لے کر مختلف اداروں اور طبقات میں کرپشن کا زہر اس بُری طرح پھیل چکا ہے کہ اس سے نجات مشکل ہی نظر آتی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس رپورٹ کے ناطے اپوزیشن حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے جبکہ حکومت اس کی وجہ Rule of Law کو قرار دے رہی ہے نیز ٹرانسپیرنسی کے پاکستان کے سربراہ کو شریفوں کو پروردہ قرار دے کر رپورٹ پر معترض ہے۔
ہم نے ابتدائی سطور میں اپنے اخبار کے حوالے سے سیاسی محاذ آرائی کا ذکر کیا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ آغاز سال ہی چند روز پہلے ہی اسلام آباد میں ایک غیر معروف تنظیم نے صدارتی نظام پاکستان کی ترقی کے حوالے سے ریلی نکالی تھی جس کی مخصوص صحافتی ٹولے نے نہ صرف خُوب پبلسٹی دی بلکہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ اب تک بنا ہوا ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق ایک خاص جماعت کا سوشل بریگیڈ پیش پیش ہے۔ عجیب بات ہے کہ وزیراعظم سے ان کے خطاب کے دوران جب اس ایشو پر سوال ہوا تو وہ مسکرائے اور جواب میں شریفوں اور زرداری کی کرپشن کو بیان کرتے رہے۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم کو ختم کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ کرپشن کے طوفان کو کوئی نظام ختم نہیں کر سکتا۔ نظام کی تبدیلی آسان نہیں کہ اس کیلئے آئین کو ختم کرنا ہوگا اور آئینی پارلیمنٹ ضروری ہے۔ درحقیقت آئندہ انتخابات تک سیاست کا دارومدار افواہوں، عدم اعتماد، مارچوں، الزام تراشیوں اور عدالتی ریفرنسوں پر ہی مبنی ہوگا اور یہ سب اپریل تک ہی ہوگا کہ اپریل میں رمضان اور جون میں بجٹ کا معاملہ آجائے گا گویا یہ ڈنگ ٹپائو ہے۔ البتہ 23 مارچ کو پی ڈی ایم کی اسلام آباد مارچ کسی بھی طرح مناسب نہیں کہ یہ تاریخ ہماری قومی شان و عظمت کا دن ہے، ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم پاکستان پریڈ اور تقاریب کا اہتمام ہونا ہے جبکہ فضل الرحمن مارچ کیلئے بضد ہیں۔ خدانخواستہ اگر اس عمل میں یوم پاکستان پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے یا کوئی غیر معمولی حادثہ ہوتا ہے تو دنیا بھر میں ہمارا کیا تاثر جائیگا۔ فضل الرحمن اور پی ڈی ایم رہنمائوں کو سوچنا چاہیے، مانا کہ سیاست میں سب جائز ہے لیکن وطن پر آنچ آئے کسی بھی طرح جائز نہیں۔
٭٭٭