نیویارک قونصل خانہ یا کونسل کھانا

0
135

تجزیہ: زاہد فاروق
خاتون افسر نے شہریار آفریدی کی امیگریشن بحث کوحکومت مخالف ٹی وی چینل کو لیک کیا گیا، قونصل خانے سے حکومت مخالف چینل کے رپورٹر سے ٹائم سکوائیر سیر کی نجی تصاویر بھی لیک کی گئیں۔ خواجہ آصف کی سفارش پر تعینات خاتون افسر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کو ترجیح دینے پرمشہور ہیں۔ پوری دنیا میںقائم ملکوںکے سفارت خانے اپنے ملک کے شہریوں کو نہ صرف سہولیات فراہم کرنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں بلکہ سفارت خانے کی بنیادی ذمہ داریوں میں ملک کے عزت و قار میں اضافہ اورملک کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کی روک تھام کی بھی ذمہ داری سونپی جاتی ہے لیکن امریکا میں موجود نیویارک کاپاکستانی سفارت خانہ اور اسکی اعلیٰ عہدیدار جہاں پاکستان کے شہریوں کو اذیت دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیںوہاں ملک پاکستان کو بدنام کرنے پرتلے ہوئے ہیں اسکی چند مثالیں ایسی ہیں جن سے پتہ چل جاتا ہے کہ خواجہ آصف کی سفارش کی بنا پرتعینات سفارت کار نے کیسے حکومتی جماعت کے ایک وزیر کو تو بدنا م کیا لیکن انہیں یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ اس خبر سے خواجہ آصف اور اسکی جماعت تو خوش ہو گی لیکن ملک کی کتنی جگ ہنسائی ہو گی۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہر یار آفریدی نیویارک کی مقامی تنظیم اوورسیرز پاکستانیز گلوبل فاونڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں شرکت کے لئے 15ستمبر کو جیسے ہی نیویارک ائیر پورٹ پر پہنچے تو امیگریشن حکام نے ان سے پوچھا کہ وہ پہلی مرتبہ امریکا آئے ہیں ان کا آنے کا مقصد کیا ہے جو ہر اس مسافر سے پوچھا جاتا ہے جو کسی بھی ملک میں داخل ہو اس سوال پر شہریار آفریدی نے جواب دیا کہ وہ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور وزیر اینٹی نارکوٹس کنٹرول رہ چکے ہیں جس پر انہیں دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں پندرہ سے بیس منٹ تک شہر یار آفریدی نے انہیں بتایا کہ وہ انہوں نے ڈرگ کنٹرول کے حوالے سے اور بطور وزیر داخلہ کی حیثیت سے کیا کیا کارنامے انجام بھی دیئے ہیں اور ساتھ ہی گلہ بھی کیا کہ اگر امریکا کا کوئی وزیر پاکستانی ائیر پورٹ پر آئے تو ایسی تفتیش اور سوالات سے آپ لوگوں پر کیا گزرے گی ایسے میں قونصل خانے کے افسر بھی پہنچ گئے اور شہر یار آفریدی وہاں سے روانہ ہو گئے اس بات کا صرف اس افسر اور خاتون اعلیٰ افسر کو ہی علم تھا اور خاتون افسر جو پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کی سفارش پر نیویارک تعینات ہیں انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور یہ خبر ایک حکومت مخالف اخبار اور چینل کے رپورٹر جو مسلم لیگی کارکن کے شہرت رکھتے ہیں اور جن کو ابھی بھی قونصل خانے میں اعلیٰ ترین پروٹوکول ملتا ہے کو دی اور پھر اس چینل نے یہ خبر بریک کی کی شہریار آفریدی کو تین گھنٹے تک امیگریشن حکام نے روکے رکھا اور بڑی مشکل سے سفارت خانے کے مداخلت سے انہیں امریکا داخل ہونے کی اجازت دی گئی حالانکہ یہ سارا واقعہ 15 منٹ کا ہے جس میں زیادہ دیر وفاقی وزیر کی بلا وجہ تکرار سے ہوئی اور امیگریشن حکام غور سے شہر یار آفریدی کے گلے شکوے سنتے رہے لیکن رپورٹر کو یہ خبر دی گئی ہے کہ تین گھنٹے روکے رکھا گیا اور پھر فوٹو شاپ کے ساتھ شہر یار آفریدی کی ایک بیہودہ پینٹ اتارتے ہوئے تصویر بھی شیئر کی گئی
ایک اور واقعہ میں پاکستان سے گئی ایک خاتون صحافی جو دفتر خارجہ کی بیٹ رپورٹر بھی ہیں کو فون کر کے 24ستمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس میں بلایا گیا اورپریس کانفرنس شروع ہونے سے چند لمحے قبل خاتون صحافی کو قونصل خانے کی حدود سے نکل جانے کا کہا گیا جس پر خاتون صحافی جنہیں ایک روز قبل اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کی رہائش گاہ سے بھی بلا کر گھر سے نکال دیا گیا تھا زاروقطار رونے لگی جس پر پریس کانفرنس شروع ہونے پر پاکستان سے گئے صحافیوں نے واک آوٹ کیا لیکن بعد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی معذرت اور اس واقعہ کی تحقیقات کے وعدے پر تمام صحافی پریس کانفرنس میں واپس آگئے لیکن پاکستان سے گئی خاتون صحافی کی سسکیوں سے سارا ماحول رنجیدہ ضرور رہا
ایسے ہی معلوم ہوا ہے کہ قونصل خانہ جو اب سیالکوٹ کونسل کھانا کے نام سے مشہور ہے میں صرف سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع کا مرکز بن کر رہ گیا ہے جبکہ مقامی پاکستانی کمیونٹی اس رویہ سے بہت نالاں ہے اور دہائیوں سے امریکا اور خاص طور پر نیویارک اور گردونواح میں مقیم پاکستانی قونصل خانے کے اس رویہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ کونسی تبدیلی سرکار ہے جہاں مخالف سیاسی جماعت کے سینئر سیاستدان کی سفارش پر گئی خاتون افسر نے احسانات کا بدلہ چکانے کے لئے شہر یار آفریدی کو تو بدنام کیا لیکن انہیں یہ پتہ نہیں چلا کہ اس سے ملک پاکستان کی کتنی بدنامی ہوئی۔
ایسے میں صرف نیویارک نہیں دنیا میں جہاں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو ملک اور اس ملک کے شہریوں کو سہولیات نہیں دیتے ان پر کاروائی ہونی چاہئے اور قونصل خانوں کو درست معنوں میں پاکستانی کمیونٹی اور پاکستان کے تشخص کی بہتری کے لئے کام کرنے کی ہدایت جاری کی جانی چاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here