پانامہ سے پنڈورہ تک دولت کے انبار!!!

0
83
رمضان رانا
رمضان رانا

اگرچہ پانامہ لیکس اور پنڈورہ لیکس کے بارے صحافی رپورٹوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کہ جس کی بنا پر پانامہ کے بنکوں میں دنیا بھر کے تھانیداروں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کی جائے جن کے بنکوں کے کھاتوں کے راز افشاں ہوپائیں۔نااہل کوئی دوسری حکومت پانامہ حکومت سے پوچھ گچھ کرنے کے اختیارات رکھتی ہے۔جس کی مثال این آر او کے تحت سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سوئٹزرلینڈ کے بنکوں نے حکومت پاکستان کے خط کا جواب تک نہیں دیا تھا جن کے بنکوں میں ساٹھ ملین ڈالر پڑے ہوئے تھے مگر ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ پانامہ یا پنڈورہ لیکس میں نام آنے والے تھانے داروں کے خلاف قانونی اور اخلاقی ایکشن لے سکتے ہیںجس میں وزیر، مشیر، سفیر، پارلیمنٹرین، سرکاری اہلکار شامل ہیں کہ جنہوں نے پانامہ جیسی ریاستوں کے بنکوں میں اپنی آف شور کمپنیوں کے کھاتے کیوں اور کس لیے کھول رکھے ہیں جس کا ریکارڈ پاکستان کے اداروں میں کیوں نہیں موجود ہے۔تاہم پانامہ سے پنڈورہ تک دولت کے انبار نظر آرہے ہیں۔جس میں پانامہ لیکس میں چھ سو کے قریب پاکستانی کھاتے دار تھے۔آج پنڈورہ میں سات سو کھاتوں داروں کے نام شائع ہوئے ہیں۔جس میں پاکستانی وزیر خزانہ شوکت ترین، سینٹر فیصل واڈا، مونس الٰہی، علیم خان، اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کا نام سرفہرست ہیں۔جبکہ آدھی درجن کا سابقہ جنرل شفاعت اللہ، جنرل نصرت نعیم،جنرل افضل مظفر، جنرل علی قلی کی ہمشیرہ ایئرمارشل عباس خٹک وغیرہ بھی رپورٹ میں شامل پائے گئے ہیں جنہوں نے پاکستان کی اربوں ڈالر پانامہ میں چھپا رکھی ہے۔جن کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔جبکہ چند سال پہلے پانامہ لیکس پر پوری عدلیہ اور جنرل کریسی بھاگتی دوڑتی نظرآئی جنہوں نے سینکڑوں پانامہ میں لوگوں کے کھاتے داروں کی بجائے نوازشریف کے بیٹوں کے کھاتوں کی وجہ سے نواز شریف کو بلیک میل کیا۔جب پانامہ لیکس پر کوئی مقدمہ نہ بن پایا تو سرکاری مصرکاروں اور بلوانوں نے پانامہ کی بجائے اوقامہ میں وزیراعظم نوازشریف کو رگڑ دیا کہ انہوں نے گلف میں اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازمت اختیار کی تھی۔جس کی تنخواہ نہ لینے کا اپنے الیکشن کمیشن کے کاغذات میں ذکر کیوں نہیں کیا ہے لہذا سپریم کورٹ کی سرپرستی اور نگرانی میں بنی ہوئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق تاحیات نااہل قرار دیتے ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔یہاں سپریم کورٹ ایک ماتحت ادنی عدالت کی شکل اختیار کر گئی جس چیف جسٹس اور جج صاحبان نے ایک سول جج یا ڈسٹرکٹ جج کا عہدہ اپناتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جس کی عدالتی تاریخ نہیں ملتی ہے کہ یہاں ملزم کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے اپیلوں کے حقوق سے محروم کیا گیا جس کا آئین پاکستان اجازت نہیں دیتا ہے۔حالانکہ پانامہ میں عمران خان کی آف شور کمپنی نیازی سروسز بھی موجود تھی جس کا نام پانامہ لیکس میں تھا مگر عدلیہ نے عمران خان کے اقراء جرم کہ میں نے برطانوی حکومت سے ٹیکس چوری میں نیازی سروسز آف شور کمپنی کھولی تھی اس لیے میں صادق اور آمین ہوں چاہے میں نے برطانوی ٹیکس چوری کیا ہے کیونکہ برطانیہ سے چوری حلال اور پاکستان کی چوری حرام ہے۔بہرکیف پانامہ کے بد پنڈورہ پیپرز ایک لیکس نامہ ہے جس کو بین الاقوامی صحافیوں کی تنظیم، انٹرنیشنل کنشوریم اینولیٹگیٹوا جرنلسٹ نے شائع کیا ہے۔کہ جس میں دنیا بھر کے ٹیکس چوروں کے کھاتے بناتے گئے ہیں جنہوں نے پانامہ جیسی لاتعداد ریاستوں کے بنکوں میں ٹیکسوں سے بچانے یا ڈرگ ڈیلروں،کرپٹوں کے دولت چھپا رکھی ہے۔جس میں پاکستان کے سات سو ملک دشمن عناصر میں جنہوں نے ایک غریب ترین ملک کی دولت کو پانامہ جیسے ملکوں کے بنکوں میں چھپا رکھا ہے۔جس پر پاکستانی حکومت نے تحقیقات کرنے یا کھاتے داروں کو سزا دینے کی بجائے براڈشیٹ جیسے ریکوری ایجنسیوں کو100ملین پائونڈ ضائع کیئے یا پھر آج نیب سے بچانے کے لیے ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ جس میں چینی چور، آٹا، ادویات چوروں کے ساتھ ساتھ پانامہ اور پنڈورہ پیپرز میں کھاتوں داروں کو معاف کردیا ہے۔جو نہایت ایک مجرمانہ فعل ہے۔کے پاکستان کی اربوں اور کھربوں کی دولت لوٹنے والوں کو چھوڑ دیا جائے جن کی بدولت پاکستان بنک کرپٹ ہوچکا ہے۔جوآج قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جس کے مجرم یہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے راتوں رات گندم، چینی، کپاس اسمگل کرکے دوبارہ واپس خرید کر ملک کو تقریباً تین ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔جس میں ملوث بشمول عمران خان تمام لوگوں کی جائیدادیں قرق کرکے پاکستان کے قرضے ادا کرنا چاہئے جن کے پاس اتنی دولت ہے کہ جس سے پاکستان قرضے ادا کر سکتا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کون کریگا۔شاید وہ دن دور نہیں ہے کہ جس دن کوئی عوام دوست حکمران آئے جو تمام بلاتفریق اور بلاامتیاز کرپٹوں راشیوں، چوروں ڈاکوئوں رسہ گیروں جاگیرداروں اور طاقت ور اہلکاروں اور عہدیداروں کو گلی کوچے میں لٹکا کر پاکستان کو بچا پائے بہرحال پانامہ ہو یا پنڈورہ سب ٹیکس چوروں راشیوں اور کرپٹوں کی جنت کے کاغذات ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے جس سے تیری دنیا کے کمزور اور غریب ملکوں کے وجود خطرے میں پڑ چکے ہیں۔جن کے کھاتے دار اپنی ریاستوں کو ٹیکس ادا کرنے کی بجائے اپنی لوٹ گھسوٹ کی دولت پانامہ جیسے ملکوں میں چھپا لیتے ہیں جو وقتاً فوقتاً نکال نکال کر اپنی نسلوں پر خرچ کرتے ہیں جن کی اولادیں بیرون ملک میں عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتی نظر آتی ہے جس کا بوجھ عام غریب پر آتا ہے اس لیے اس کا احتساب کرنا ضروری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here