”اللہ تیرا شکر ہے”

0
33
شبیر گُل

الحمد للہ رب العالمین! آج کچھ دوستوں کی فرمائش اور اصرار پر چند الفاظ لکھنے کی جسارت کر رہاہوں۔ آنکھوں سے پانی چھلک چھلک کر رب کریم کا شکر ادا کررہا ہے۔ کیا کبھی ایسے بھی ممکن ہے کہ کوایک شخص کئی ہفتوں تک مصنوعی سانسوں کے سہارے زندہ ہو۔ جسم میں کوئی حرکت اور جنبش نہ ہو۔اور پھر اچانک اسکے جسم میں زندگی کی لہر دوڑ جائے۔ اور پھر آنکھ کھلنے پر اس مالک عظیم کا شکر ادا کیوں نہ کرئے۔اْسکے بندوں سے پیار کیوں نہ کرئے۔ جنہوں نے دن رات مجھ پر محبت و شفقت نچھاور کی ہو۔ اللہ رب العزت نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے۔سینکڑوں مخلص دوستوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ میں ایک عام آدمی ہوں ـ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مجھے بہت امیر بنا دیا ہے۔(الحمد للہ ، الحمدللہ)خضور نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخض انتہائی غریب ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔میرے سینکڑوں محبت کرنے والے دوست ہیں۔ جن میں کئی دوست انتہائی مخلص ہیں۔ آج سے چالیس سال قبل اپنے مرحوم و مغفور ابا جان اللہ جل شانْہ میرے والدین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔ میں نے ابا سے بہت دیسی جملہ سنا۔ کہ دوست کا مطلب دو ـ ست ہے۔ یعنی ایک ست۔ سات چیزوں کے نچوڑ کا نام ہےـ اور دوـست سے مراد چودہ مخلص اشخاص ہوا کرتے ہیں۔ میں ساری زندگی اپنے ابا کی اس سادہ بات کو سمجھ نہ سکا لیکن آج میں نے دوست کے مفہوم کو پا لیا ہے۔ان دوستوں کا بھی مشکور ہوں۔جنہوں نے باریاں بانٹی ہوئی تھیں۔ میری بیماری کے دوران روزانہ میرے گھر کھانا پہنچاتے۔ ان دوستوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں دعائیں دیتا ہوں۔ ان کے ایثار کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مشکل میں کسی کے کام آنا مومن کی پہچان ہے۔ دیار غیر میں بے نامی کی موت مرنے والے بیسیوں لوگوں کی تدفین کے انتظامات میرے ہاتھوں ہوا۔ جن کا نہ کوئی دوست اور نہ کسی سے رشتہ تھا۔مجھ پر اللہ کا خاص احسان ہے۔ کہ میں نے ہر مذہب، ہر نسل، ہر رنگ کے لوگوں سے اظہار عقیدت وصول کیا ہے۔ میری تندرستی اْسی کی مرہون منت ہے۔ رسول خدا کا فرمان ہے کے سلام اور طعام دلوں میں رحم پیدا کرتا ہے۔ یہ رحم میں اور میری فیملی نے ہر رنگ و نسل کی کمئونٹی سے وصول کیا۔ اللہ چونکہ رب العالمین ہے۔ وہ ہر ایک کی سْنتا ہے۔ اسی لئے تو وہ رب ہے۔ جس کی ربوبئیت میں ہم سب ہیں۔ جس کی الوہیت پوری کائنات پر ہے۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ۔ سب بڑوں سے بڑا۔ کائنات کی ہر چیز پر قادر اورانسانوں کا پالنہار ہے۔اْسکی بڑائی اْس کی شان ہے۔ اْسکا شکر اْسکی آن ہے۔ اْسکی آن اور شان پر سمجھوتا کرنے والا بے مقدر ٹھہرتا ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ کہ ایک دوسرے کے لئے دعاء کرو۔ اس میں بخشش یقینی ہے۔ کیونکہ دوسروں کے لئے دعاء صاف دل سے کی جاتی ہے۔ میں اپنے دوستوں کے خلوص اور اچھائی کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔دوستوں کی کمزوریوں کی بجائے انکی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔کیونکہ یہ عمل ہماری عزت اور بخشش کا وسیلہ ہے۔سلوی فوڈ کے مالک مشتاق مستری صاحب کی محبتوں کاشکریہ جنہوں نے اٹلانٹا میں میرے لئے دعائیں کرائیں۔ مشتاق بھائی ہر دوسرے دن فون کرکے میری صحت کا پوچھتے تھے۔ اللہ کریم انکے رزق میں برکت اور صحت والی زندگی عطاء فرمائے آمین۔اکنا ریلف کے سابق سی ی او برادر مقصود ، اور موجودہ سی ای او،برادر رؤف خان، اکنا کے امیر ڈاکٹر محسن انصاری صاحب، امام رفیق صاحب، ہنگر پریوشن کیبرادر زاہد صاحب، برادر ارشد جمال،معوذ صدیقی، انور گجر،اسحاق الپر،۔شکاگو سے سلمان آفتاب کی دعاؤں کا شکریہ۔
محترم قارئین کرام !: میں اپنی بیماری کو چند اقساط میں آپکی نظر کرونگا تاکہ آئیندہ میری اصلاح ھوسکے۔ اور دوست احباب کو مجھ پر گزرے کٹھن لمحات سے آگاہی ھوسکے۔ وہ میری مکمل صحت یابی کے لئے مزید دعائیں کرسکیں۔ ھم سب دعاؤں کی طلبگار ہیں۔ بنیادی طور پر بہت کمزور اور نخیف ہیں۔ دوستی میں لالچ اور فائدہ ڈھونڈتے ہیں۔ بلکہ خونی رشتوں سے تعلق بھی نفع اور نقصان دیکھ کر کرتے ہیں۔ صلہ رحمی کے رشتوں کی ناقدری کرتے ہیں۔اس بنا پر اندر سے کھوکھلے ہیں۔ اکٹر اور تکبر ہمارا شعار ہے۔ انسان میں تکبر اور اسکی “میں ” نے اْسے انسانیت سے کاٹ دیا ہے۔۔ اللہ رب العزت کو یہ (میں) اور تکبر پسند نہیں۔ اللہ سبحانْہ تعالیٰ متکبر ہے۔ تکبر اللہ کی شان اور صفت ہے۔ یہ کسی انسان کی ملکیت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں کسی کو شریک نہیں بنایا۔ میری مرحوم و مغفور امی جان (اللہ جنت الفردوس میں مقام نصیب فرمائے آمین) فرمایا کرتی تھیں۔ جب درخت پر پھل لگتا ہے تو وہ جھک جاتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ جب انسان کو اللہ نوازتا ہے یا ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہے تو وہ جھکنے کی بجائے اکڑ جاتا ہے۔ کیا ھم اس بے جان سے بے گئے گزرے ہیں۔ میں نے اپنی بیماری سب سے معافی مانگی اور سب کو معاف کردیا۔بیماری میں گزرے لمحات میں بڑے بھائی مْنیر پاشا صاحب کا بہت احسان مند ہوں جو چار ماہ مسلسل میرے ساتھ سایہ کی طرح رہے۔ ابھی تک ہر اپوائنٹمنٹ پر میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ گھنٹوں ڈاکٹروں سے مشاورت کرتے ہیں۔ بیماری کے دوران ڈاکٹروں اور نرسوں کو کافی اور بیکری بلا ناغہ لا کردیتے تھے۔ انہوں نے میرے لئے درجنوں بکرے اور ہزاروں ڈالرز صدقہ کیا۔ ڈاکٹر طاہرخان، خاور بیگ کا بہت احسان مند ہوں جو روزانہ میرے لئے چکن سوپ لیکر آتے تھے۔ ملک خالد اعوان اور انکا بیٹا روزانہ میرے لئے جوس لیکر آتے تھے۔اے بی ملک میرے لئے روزانہ کٹا ہوا فروٹ لاتے تھے۔ انکی محبتوں کا شکریہ۔ اللہ ان سب کو اجر عظیم عطاء فرمائے آمین۔
قارئین محترم!۔ گزشتہ سال جولائی کے مہینہ میں آفس میں بیٹھا تھا پاکستان سے کئی احباب حسب معمول تشریف لائے جن میں پولیس کے فوج کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اور کئی سیاسی شخصیات ملنے کے لئے تشریف لائے۔ جن میں سے کسی سے مجھے ہیپاٹیٹس کے وائرس لگے جس نے میرے تمام Organs کو ڈیمیج کیا۔ میں چونکہ COVID ـ19 کا تین بار مقابلہ کرچکا تھا جس سے میریامیون سسٹم میں برداشت کی کمی تھی۔ اسلئے میرے جسم پر ہیپاٹائٹس کا وائرس جلدی اثر کرگیا۔ میں پہلے تو سمجھا کہ مجھے یرقان ہے۔ لیکن ہاسپٹل ایڈمٹ ہوا تو معلوم ہوا ، میرا لیور پینسٹھ فیصد ، میرے گردے، میرا پتہ، میرا لبلبہ اور ہارٹ پر افیکٹ ہوا ہے۔ میں سب سے پہلے اللہ رب العزت کا مشکور ھوں۔ اپنے سرجن اور آٹھ قابل ترین ڈاکٹرز کی ٹیم کا انتہائی مشکور ہوں۔سینٹر نتالیا۔ اسمبلی مین جان زرقو۔اسپیکر اسمبلی کارل ہیسٹی اور بورو پریذیڈنٹ سسٹر ونیسا گبسن کا احسان مند ہوں جن کی بدولت ہاسپیٹل میں مجھے وی آئی پی پرسنیلٹی کا درجہ دیا گیا۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاسٹرز ،امامز، رابیائی، گرنتھی، اور ہندو مذہب کو ماننے والے لیڈرز کی محبتوں اور گلدستوں نے باور کرایا کے انسانی خدمت دلوں میں احترام اور محبت پیدا کرتی ہے جسے کا مشاہدہ ابھی بھی کررہا ہوں ابھی تک ہر ایک ہفتہ دفتر اور گھر تین چار گلدستے مجھ سے محبت کا اظہار ہے۔کئی دوست ہزاروں میل سفر کرکے تیمارداری کے لئے آئے۔اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے سابق ناظم محترم طیب شا?ین ہر جمعہ کی صبح تشریف لاتے۔ نعیم بٹ صاحب کا شکریہ جو میری بیماری میں لمحہ لمحہ خیال رکھا۔ اور بچوں سے کہا چوبیس گھنٹے میرا فون کھلا ہے کسی بھی ضرورت میں گھبرانا اور پریشان نہیں ہونا۔ قارئین !۔ میں بہت چھوٹا آدمی ہوں لیکن میں نے ان دس ماہ میں اپنے آپ کو بہت بڑا آدمی پایا۔ مجھے نہیں معلوم تھا لوگ مجھ سے اتنی والہانہ محبت کرتے ہیں۔ یہ مجھ جیسے چھوٹے اور عاجز شخص کیلئے اللہ کی خاص عنائت اور بہت ہی بڑی blessing ہے۔ابھی تک لوگ ملتے ہیں آنکھوں میں آنسو لئے اظہار محبت کرتے ہیں۔ ماتھا اور ہاتھ چومتے ہیں۔ یہ سب صرف اور صرف اللہ رب العزت اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے محبت کا نتیجہ ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب افغانی اقوام متحدہ کے سامنے پاکستان کو گالیاں دے رہے تھے۔میں نے مملکت خداداد سے محبت کی خاطر ہزاروں کے مجمع پر چھلانگ لگا دی۔ سینکڑوں لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں بالکل گھبرایا نہیں۔ جب دوسال پہلے اسرائیلی ایمبیسی کے سامنے میں نے مظاہرہ کیا اور جمعہ پڑھایا۔ سینکڑوں سیکورٹی اہلکاروں کی غنڈہ گردی سے نہیں گھبرایا۔
جب میں قرآن کی بے حرمتی اور نبی رحمت کی شان میں گستاخانہ خاکوں پر دھمکیوں کے ٹیلفونْ۔ اور مسلم ڈے پریڈ کی چیئرمینی کے دوران ایف بی آئی، ہوم لینڈ سکیورٹی ، پولیس ڈیپارٹمنٹ کی پوچھ گچھ سے اور نان الیون پر چھاپوں سے کبھی نہیں گھبرایا تھا۔ لیکن ہاسپیٹل سے آنے کے بعد ،اعمال کی شامت کے خوف سے گھبرایا رہتا ہوں۔ بات بات پر آنسو نکل آتے ہیں۔ دل کمزور ہوچکا ہے۔ مگر اچھے دوست میری بیماری میں میرے لئے ہر مقام پر اثاثہ ثابت ہوئے ہیں۔ اللہ ان سب کو اسکا اجر نصیب فرمائے۔ پورے امریکہ، کینڈا ،انگلینڈ، یورپ اور خلیج میں پھیلے جماعت اسلامی کے سابقین میرے لئے مرحم ثابت ہوئے۔ (الحمدللہ )دوست فرماتے ہیں کہ میری ہاسپیٹل سے گھر زندہ واپسی ،ایک معجزہ ہے۔ جو دعاؤں کا صدقہ ہے۔ دعائیں تقدیر اور مقدر بدل دیتی ہیں۔
اپنے مقدر پر صبر و شکر مومن کا خاصا ہے۔ مال آنی جانی چیز ہے۔ھم نجانے کیوں اسکی بنیاد پر رشتوں کو توڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ رشتوں کو جوڑنا حکم خداوندی ہے اللہ رب العزت نے صلہ رحمی کے رشتوں کا احترام اور انسانی قدروں کی اہمیت کو قرآن میں کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ جل شانْہ نے انسانی زندگی کے اصول و ضوابط سکھانے رسولوں کے ذریعہ بتائے ہیں۔اور آخر میں رسولوں کے رسول ، رسولوں کے امام اور اپنے محبوب کو بھیجا۔ جنہوں نے زندگی کے ہر ہر شْعبہ میں ہماری رہنمائی فرمائی۔اور فرمایا زندگی کی قدر کرو۔
دوستو!۔زندگی بہت قیمتی اثاثہ ہے اس سے محبت کیجئے اسے فضول ضائع مت کیجئے۔ اللہ رب العزت صرف ایکبار پیدا کرتا ہے۔ اسے غنیمت جانتے ہوئے آخرت کی جوابدی کااحساس مدنظر رکھنا چاہئے۔آج صحت مند ہیں کل بیماری میں مبتلا ھوسکتے ہیں۔ آج ھم ہیں کل نہیں ھونگے۔ موت برحق اور یقینی ہے اس سے کسی کو مفر نہیں۔ سانسیں اللہ کریم وجلیل کا عطیہ ہیں۔اللہ کی رحمت اور مالک ارض و سماں کی نعمت ہے۔ ان سانسوں کی قدر کرنی چاہئے۔ اپنے اندر آخرت کی جوابدہی کا احساس مرنے نہیں دینا چاہئے۔ دوستوں اور خونی رشتوں کی عزت کیجئے۔جو ہمارے اٹھ جانے کے بعد دعاؤں کے ذریعہ ذخیرہ نجات ہونگے۔ زندگی کے معاملات،لین دین کے معاملات،بزنس کے معاملات،صلہ رحمی کے رشتے قائم رکھیں۔ قطع تعلق مت کیجئے۔ زندگی کو پْرسکون بنانے کے لئے معاملات میں انصاف بنیادی اصول ہیں۔ ان اْصولوں کو بْرد ہونے سے بچانے کے لئے عزت ، وقار اور احترام بنیادی شرط ہے۔ لاکھوں نمازیں اور سجدے ہمارا کچھ سنوار نہیں سکتے، اگر خونی اور قریبی رشتے ناراض ہوں۔ زندگی کے معاملات بے ترتیب ہوں۔ بے اْصولی اوڑھنا بچھونا ہو۔ تو اللہ کی ناراضگی مقدر ٹھہرتی ہے۔کل یوم حساب بھی ہے۔جس سے پناہ رسول اقدس بھی مانگتے تھے۔ہماری کیا حیثیت ہے؟۔
یومْ القیامہ کی ہولناکیوں اور دوزخ کی گرمی کو ملخوظ رکھنا مسلمان کا بنیادی فرض ہے۔ بنیادیں کمزور ہوں تو عمارت کا منہدم ہونا لازمی امر ہے۔
گزشتہ دنوں برادر محمد بخش نے حج کی سعادت حاصل کی آج اْس نے ہزاروں حاجیوں کی شہادت کے مناظر بیان کئے تو سب کی آنکھوں میں آنسو اور رقت طاری تھی۔کئی ہزار افراد کی اموات مس منجمنٹ کی وجہ سے تھی۔ برادر محمد بخش کا کہنا ہے اْس نے یوم القیامہ کا منظر دیکھا ہے۔ مگر ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ دوزخ کی آگ اور تپش ،دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ ھوگی۔
امام شبیر ،امام مرسلین اور اخبار نویس لودھی کئی دنوں سے گزرے لمحات بیان کرنے کا اصرار کررہے تھے کہ برادر شبیرگْل آپ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے۔ وینٹیلیٹر پر رہے، مصنوعی طور پر آپکو آکسیجن سے زندہ رکھا گیا تھا۔ ہر شخص آپکی زندگی سے مایوس تھا۔میں نے ہاسپیٹل میں موت کی آغوش میں وقت گزارا۔ مجھے تو کوئی ہوش نہیں تھا۔نہ ہاتھوں کی نہ ٹانگوں کی نہ آنکھوں کی جنبش۔ بچوں پر دو ماہ قیامت کی طرح بھاری تھے۔ میرے بڑے بھائی مْنیر پاشا ،میری بیٹی زخرف چوبیس گھنٹے سایے کی طرح ہاسپیٹل میری بے جان نیم زندہ لاش کے ساتھ بیڈ کے اردگرد رہے۔ پاکستان میں میرے بیوی بچے ، میرے بھائی اور بہنیں اللہ سے رو رو کر زندگی کی دعائیں مانگتے رہے۔ ہر روز غربائ اور مساکین کو کھانا کھلاتے ، تاکہ کسی کی دعائ میری سانسوں کو جانبر کرسکے۔ ایک مسلم نرس کے بقول میری بیٹی اور منیر پاشا بھائی زندگی کے لئے آس اور اْمید لگائے ہر وقت ٹکٹکی لگائے دیکھتے رہتے۔ جب کئی ہفتوں کے بعد میں نے آنکھ کھولی تو ذہنی طور پر پاگل ہوچکا تھا۔ لہجے میں کرختگی،روئیے میں سختی عیاں تھی۔میرے اس حالت پر محترم ملک خالد اور ، نعیم بٹ کئی بار روئے۔میں انکی محبت اور شفقت کو زندگی بھر بھلا نہیں پاونگا۔پوری دنیا میں پھیلے جماعت اسلامی کے دوست۔ اسلامی تحریکات کے لیڈرز، امام کعبہ ، مسجد نبوی کے امام۔ماس کے سربراہ ڈاکٹر شیخ الحمود سلوی۔امریکہ میں قرآن کی خوبصورت آواز اور قاریوں کے سربراہ شیخ البطرش ،افریقہ میں سید مودودی کے ساتھی راوی صاحب ،مالی میں محمد نبیل، سینیگال میں سسٹر موسو درامے۔نائجیریا کے بڑے امام ، گیمبیا کمیونٹی کی ٹرابیلز کے سربراہ محمد مردا۔ امریکہ کی تمام تقریبا تمام اسٹیٹس کے بڑے سینٹرز میں دعائیں۔
بنگلہ کمیونٹی، یمنی کمیونٹی، افریقن کمیونٹی کی دعائیں۔ انگلینڈ کی مساجد میں میرے دوست اسد صاحب، جرمنی کی مساجد میں میاں اختر صاحب ، سکینڈے نیویا اور ناروے میں دوست۔آسٹریلیا کی مساجد میں وقار صاحب،جاپان کی مساجد میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ساتھی حسین صاحب کے بیٹے ، فرانس میں عبدالشکور صاحب ، دوبئی میں ذاہد صاحب،اللہ کے گھر میں ستائیں دوستوں کی خانہ کعبہ کے سامنے دعائیں اور صحت کی التجائیں اللہ وحدہ لاشریک نے سْن لیں۔ میں نے ہسپتال میں بستر مرگ پر گھر آنے سے پہلے مالک کائنات سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی کسی کا نہ دل دکھاونگا۔ نہ کسی سے بے انصافی کرونگا۔ معاملات کو اللہ جل شانْہ اور امام الانبیا ،سردار کائنات نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرونگا۔
میں سمجھتا ہوں کی دعاؤں کے صدقے اللہ رب العزت نے مجھے بونس میں دوبارہ زندگی عطاء کی ہے۔ جس کا شکرانہ ہر صورت مجھے ادا کرنا ہے۔ کیونکہ اسکی پکڑ بہت سخت ہے۔ وہ شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔ میں نے اس قربت کو محسوس کیا ہے۔ جس تکلیف سے گزار اور گزر رہا ہوں۔ دن میں ہزاروں بار اپنی خطاؤں ،غلطیوں اور گمراہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ تاکہ اْس کی پکڑ اور روز محشر ندامت سے بچ سکوں۔
میرے دوستو! زندگی ایک امتحان ہے۔ آزمائش ہے۔ اللہ سے اسکی رحمت کی طلب کیجے۔ کیونکہ اس کی رحمت اور کرم دراصل وسیلہ جنت ہے۔ وگرنہ ہم کس باغ کی مولی ٹھہرے۔؟ہماری اوقات کچھ بھی نہیں۔ ہم اللہ کے کرم کے محتاج ہیں۔ محتاج آدمی میں اکڑ نہیں ھوا کرتی۔ اسلئے میں نے اپنے آپکو اللہ اور رسول خدا کے مشن کے لئے وقف کردیا ہے۔ تاکہ میرے ساتھ آخرت میں بہتری کا معاملہ ہوسکے۔آج میں نے پینٹری پر اپنے مختصر خطاب میں وائلنتیززسے اپیل کی کہ ضرورت مند افراد کو باعزت طریقے سے فوڈ دیں۔ اللہ پاک نے ہمیں انسانوں سے محبت کا موقع فراہم کیا ہے۔
میں خصوصا اپنے خونی رشتوں ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں اور اْن تمام دوستوں، محبین کا مشکورو منون ہوں جنہوں نے میرے لئے سینکڑوں بکرے ذبیح کئے۔ صدقات و خیرات کئے۔ صاحب حئی القیوم سے صحت کی دعائیں کیں۔میرے لئے فکر مند رہے۔ ہر ہر لمحہ انکی شفقت کا شکرگزار ہوں۔ کیونکہ جو بندوں کی عنائیتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ وہ اللہ رب العالمین کا ناشکرا رہتا ہے۔ مجیب لودھی صاحب آپ نے اور امام شبیر نے مجھے آپ بیتی لکھنے کو کہا۔ بتائیے میں کیا لکھوں، کیسے لکھوں، ہاتھ کپکپا رہے ہیں، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ جو لکھنا چاہ رہا ہوں وہ الفاظ نہیں مل پائی رہے۔ بس اتنا ہی کہونگا۔
الحمد للٰہ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ رب العالمین۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here