سانحۂ مری بے حسی کی انتہائ!!!

0
137
شمیم سیّد
شمیم سیّد

مری حادثے کو انہونی نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا بھر میں ایسی ہزاروں قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں جن میں کئی سو افراد انا فانا موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ میں طوفان آیا اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ، کئی سو مارے گئے۔ پچھلے سال امریکی ریاست ٹیکساس میں برفانی طوفان کے باعث کئی ہفتے بجلی کی ترسیل بند رہی۔ پینے کا پانی تک غائب ہو گیا۔ نظام زندگی معطل ہونے کی وجہ سے دکانوں پر کھانے پینے کی اشیا بھی ختم ہوگئیں۔ کیا پاکستان کے لوگ جو پچھلے چار دنوں سے حکومت کو شرمندہ اور ملامت کر رہے ہیں امید رکھتے ہیں کہ اس قسم کا واقعہ دوبارہ نہیں ہو گا؟ ہم چاہیں بھی تو اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتے۔ اسکی وجہ حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عوام کے اعتماد کا فقدان ہے۔ اس کی وجہ حکومتی وعدوں اور ان کی طرف سے جاری کردہ بیانات کو روائتی سیاست سمجھنا ہے۔ اس کی وجہ ریاست اور عوام کے درمیان سماجی معاہدے میں دراڑ ہے جس کی خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ کوئی پہلی حکومت نہیں ہے جو مصیبت کے وقت ، جبکہ حادثہ کی جگہ نہ تو کسی دور دراز علاقے میں تھی کہ جہاں تک رسائی ممکن نہ ہو، بروقت نہ پہنچ سکی۔ جبکہ وہ تمام افراد جو اس برف اور ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے مسلسل اپنے عزیز و اقارب سے التجا کر رہے تھے کہ کسی طرح حکومتی مدد فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ ایک پولیس اہلکار بھی اس حادثے میں اپنے چار بچوں بہن اور اسکے دو بچوں سمیت مارا گیا ہے۔ اسکی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں وہ اپنے صحافی کزن کو مدد فراہم کرنے سے متعلق کہہ رہا ہے۔ اس کے کزن نے ہر جگہ فون گھمائے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو میسج بھیجے لیکن اس کی کسی نے نہیں سنی۔ یہ واقعہ اسلام آباد سے صرف 64 کلو میٹر کی دوری پر پیش آیا۔ یہ واقعہ محکمہ موسمیات کی برفانی طوفان کی پیشن گوئی سے متعلق نوٹس کے باوجود پیش آیا۔ یہ واقعہ اس میڈیا کی موجودگی میں پیش آیا جو مری کی رومانویت میں اسے ملکہ کہسار تو کہتا ہے لیکں محکمہ موسمیات کی طرف سے موصول نوٹس کو نشر کرنے اور اس سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی پروفیشنل استعداد نہیں رکھتا۔ یہ واقعہ اس وزیر کی موجودگی میں پیش آیا جو ایک لاکھ گاڑیوں کے مری میں داخل ہونے کی خبر میں چھپے خطرے کو بھانپ نہیں سکا اور اسے حکومت کی معاشی خوشحالی سے تعبیر کرتا رہا۔ جبکہ اس بات کا سب کو علم ہے کہ مری اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ایک لاکھ گاڑیوں کو اپنے اندر سمونے کے متحمل نہیں۔ یہ واقعہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی موجودگی میں پیش آیا جس نے ممکنہ حادثے سے نمٹنے کے لیے نہ تو راستوں سے برف ہٹانے والی مشینری کو جائے وقوعہ پر پہنچایا اور نہ ہی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو مری جانے سے روکنے کا بندوبست کیا۔ اور یہ واقعہ حکومت کی روائتی گورننس کی وجہ سے پیش آیا۔ ہماری حکومتوں کا ایک چلن یہ بھی رہا ہے کہ جب وہ اقتدار میں آتی ہیں تو اپنا سکہ جمانے کے لیے نئے پروگرامز جاری کرتی اور ادارے بناتی ہیں۔
2005 سے 2021 تک اس ادارے کی جتنی بھی آڈٹ رپورٹس ہیں ان میں مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کاذکر ہے۔ حالیہ رپورٹ میں ادارے پر کوویڈ کی مد میں ملی گئی مالی امداد میں ڈاکہ ڈالنے کا الزام بھی ہے۔ لیکن حکومت خاموش ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ ادارہ بھی اسی اوج ثریا میں مقیم ہے جہاں حکومتوں، احتسابی اداروں، پولیس اور خود وزیر اعظم کے پر جلتے ہیں۔ جس ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے بعد از مرگ مری کا دورہ کیا صرف اسی کو اگر لوگوں کی امداد کے لیے بھیج دیا جاتا تو پچیس افراد ایک ایسے حادثے میں نہ مرتے جسے بروقت کارروائی سے ٹالا جا سکتا تھا۔ کوئی عمران خان کو بتائے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ نا اہلی ہے۔ کیوں نہ حکومت نمونے کے طور پر این ڈی ایم اے ہی کو کیفر کردار تک پہنچا دے تاکہ نااہلی سے پیدا ہونے والی کرپشن کے خاتمے کی شروعات کی جاسکے۔
دوسری طرف جو ادارے پہلے سے کام کر رہے ہیں ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ پی ٹی آئی حکومت بھی جب سے آئی ہے اسی طرز پر کام کر رہی ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کی کارکردگی زیرو ہے جبکہ کھیلوں کے لیے کامیاب جوان پروگرام کے تحت نئے سرے سے کام کیا جارہا ہے۔ اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر احساس پروگرام چلایا جا رہا ہے۔ جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اپنی جگہ موجود ہے اور لوگ اس ادارے میں نوکریاں بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل ہونے کے باوجود رحمت اللعلمین اتھارٹی بنائی گئی اور درجنوں افراد کو ادارہ چلانے کی خاطر بھرتی کیا گیا ۔ اسی طرح پناہ گاہوں کی شروعات کی گئی جبکہ بیت المال اور اسکے ضلعی اداروں کے پاس اس قسم کے انفراسٹرکچر کے لیے بہت سی سہولیات موجود ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here