سی آئی اے کے Twins ٹاور گرانے کے بعد فرعون ثانی جارج بش نے اپنے خطاب میں افغانستان اور پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچا کر نشان عبرت بنا دینگے۔ خدائی لہجہ اختیار کرنے والا بش افغانستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچاتے پہنچاتے، پتھروں کے اندر پھنس گیا۔امریکہ کا مقابلہ اْن لوگوں سے تھا، جو کارپیٹڈ بمباری سے ریزہ ریزہ ہونے والے پتھروں اور بموں کے لوہے کو اکٹھا کر کے بیچتے رہے۔ سوکھی روٹی کھا کر ، ٹوٹے جوتے پہن کر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے وقت کے فرعونوں کو شکست سے ہمکنار کرتے رہے۔ آج سے چوالیس سال پہلے روس کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد۔ سی آئی اے نے کیمونزم کی دہشت و وحشت کا خوف دلا کر کولڈ وار کا آغاز کیا۔ پاکستان اور مسلم ممالک کے نوجوانوں کو جہاد کے نام پر تیار کیا گیا۔پھر تاریخ نے دیکھا کہ نوجوانوں کے قافلے پوری دنیا سے جہاد فی سبیل اللہ کیلئے پاکستان اور پھر افغانستان کی سرزمین پر اترتے رہے۔دو سْپر پاورز کی جنگ بلاواسطہ لڑی گئی۔ سوویت یونین اپنے جدید ہتھیاروں اور لاؤ لشکر کے ساتھ آیا اور عبرتناک شکست کھائی اور کئی ریاستوں سے ہاتھ دہو کر رخصت ہوا۔ سی آئی اے اور عرب ریاستوں نے افغانستان میں روپیہ پانی کی طرح بہایا۔
سویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑ کراکیلا سْپر پاور بن گیا۔افغانستان کی خانہ جنگی ،وار لارڈز اور اندرونی جنگ نے طالبان کو جنم دیا۔جنہوں نے افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور امن قائم کیا، اسلامی قوانین کا احیاء کیا۔ جو یونی پولر ورلڈ اور ماڈریٹ اسلامی لیڈرز کوہضم نہ ہوا۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو گرانے کا پلان تیار کیا گیا اسامہ بن لادن پر الزام دھرا گیا حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ انکار پر پورے افغانستان کو کارپیٹڈ بمباری سے نشانہ بنایا گیا۔ کئی لاکھ نیٹو اور امریکن فوجی دستے افغانستان میں اتارے گئے۔بیس سال اپنی عوام سے جھوٹ بولا جاتا رہا۔ اپنی عورتوں کو ننگا دکھانے والے امریکہ اور یورپ کو افغانستان کی برقع پہننے والی عورتوں سے ہمدردی اور اْن کی بہت فکر ہے۔انکی تعلیم کی فکر ہے۔ لیکن انکو گزشتہ بیس سال افغانستان میں ڈویلپمنٹ کی فکر نہ ئی۔
امریکہ خواتین کا احترام کے لفظ کو اپنی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے کیلئے استعمال کرتا رہاہے۔کیونکہ اسکے پاس اپنی عوام کو دھوکہ دینے کیلئے کوئی دوسرذریعہ نہیں ہے۔عورت کے حقوق اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے کڑوڑوں ٹن بارود افغانستان میں برسایا، تورا بورا سے لیکر قندھار، پکتیا ، لوگر، سے لیکر ننگر ہار تک کارپیٹڈ بمباری کی۔ لاکھوں بے گناہ بچوں ، عورتوں اور افغانیوں کو لقمہ اجل بنادیا۔ افغانستان،عراق ،مصر ،لیبیا ،شام اور یمن میں تباہی کے ذمہ دار افغانستان میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ جنہیں ،فلسطین ، شام، یمن اور کشمیر میں انسانی حقوق یاد نہیں۔ اپنی تہذیب اور معیار کو جبراً دوسروں پرمسلط نہیں کیا جاسکتا۔ مادیت کی بنیاد پر قوموں کو مسخر نہیں کیا جاسکتا۔طاقت کا گھمنڈ نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ طاقت کی بنیاد پر فرعونی اور طاغوتی نظام کبھی کامیاب نہیںہو سکتا۔روس کو اپنی آنکھوں کی سامنے ٹوٹتے دیکھا۔ امریکہ اور نیٹو نے بھی بیس سال پوری قوت سے لڑ کر دیکھ لیا۔ نتیجہ آپکے سامنے ہے۔لیکن پتھر کے زمانے میں رہنے والوں نے بیس سال بعد ایکبار پھر بتا دیا کہ جو حشر سوویت یونین کا ہوا وہی آپکا مقدر ٹھہرا۔ کیونکہ جنگیں اسلحہ سے نہیں جذبوں اور ایمانی قوت سے لڑی جاتی ہیں۔ افغان جنگ میں پوری دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ،جدید ترین فورسیز، جدید وسائل پتھر کے زمانے میں رہنے والے مجاہدین کے آگے ڈھیر ہوگئے۔ کیونکہ عدل,انصاف اور حق اصل قوت ہے۔ اسکا مقابلہ B 52 ,بلیک ہاک، ٹام ہاک ، اور ڈیزی کٹر بم نہیں کرسکتے۔
ماڈریٹ مسلم لیڈرز کو طالبان سے خطرہ ہے۔ سوکھی روٹی کھانے اور زمین پر سونے والے ، پتھر کے زمانے میں رہنے والے مجاہدین ، جنہوں نے آج دوسری بڑی سْپر پاور امریکہ اور اْسکے اتحادیوں کو شکست سے ہمکنار کیا ہے۔امریکہ میں اس جنگ کی شکست کے اثرات کئی سال تک محسوس کئے جاینگے۔تاریخ گواہ ہے کہ وقت کافرعون ،متکبر ،خدائی لہجے میں بات کرنے والا جارج بش۔ ذلیل و رسوا ہوا۔فرعونی خصلت والا پرویز مشرف ابھی زندہ ہیں۔ آج طالبان کی کامیابی اور فتح پر ضرور سوچتے ہونگے کہ اْنکی حماقت کی وجہ سے لاکھوں افغان مارے گئے اور پاکستان جو امریکہ کا ساتھ دینے کی پاداش میں آئے روز دھماکوں اور خود کش حملوں کی وجہ سے ستر ہزار پاکستانیوں کی شہادتیں ہوئیں۔
مشرف جیسا بے دین شخص امریکی دھمکی کے آگے ٹھہر نہ سکا۔جسکا خمیازہ پوری قوم اور اْمت مسلمہ کوبھگتنا پڑا۔امریکہ اور یورپ کے کئی ہزار فوجی مارے گئے۔ ہزاروں اپاہج ہوئے۔ ہزاروں ذہنی مریض بنے۔ کئی ٹریلین ڈالرز جنگ میں جھونکے گئے۔ لیکن ذلت مقدر ٹھہری۔بزدل، کمزور اور منافق حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان کمزور ہوا۔ ڈیڑھ سو بیلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ آج صرف ایک بار Absolutely not کہنے کی جرآت نے پانسہ پلٹ دیا۔اگرآج امریکہ کواڈے دئیے جاتے تو طالبان فتح سے ہمکنار نہ ہوتے۔چونکہ ہم چائینہ کے ایلائی ہیں چائنہ دنیا کی آئیندہ سْپر پاور اور مرجنگ اکنامک ہب ہے۔جس کی دوستی کیوجہ سے ہمارے اندر ناں کہنے کی جرآت پیدا ہوئی۔جس کا اثر عالمی رائے عامہ پر ہوا۔عالمی طاقتوں کے افغانستان میں جو اہداف اور مفادات تھے وہ تو حاصل نہیں کرسکے۔لیکن امریکہ نے جنگ میں اسلحہ بنایا اور بیچا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اپنی اسلحہ انڈسڑی کو زندہ رکھنے کے لئے آئیندہ کہاں محاذ جنگ گرم کرتا ہے۔ پوری دنیا کے دفاعی بجٹ کا نصف بجٹ امریکہ کا دفاعی بجٹ ہے۔امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً آٹھ سو بلین ڈالر ہے۔سینکڑوں امریکی اڈے پوری دنیا کے طول و عرض میں موجود ہیں۔ پوری دنیا پر نظر رکھنے کیلئے سیٹلائیٹ ،سمندر میں برتری کیلئے جنگی جہاز، ایشیاء ، افریقہ، خلیج، یورپ اور شمالی امریکہ میں انکی بیس اور ایجنٹ موجود ہیں۔ ہر ملک میں حکمران یا اپوزیشن انکے ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں۔جدید ترین اسلحہ انڈسڑی کا مالک امریکہ ہے۔ پوری دنیا کا بڑا میڈیا انکا حواری ہے۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور مالیاتی اداروں پر امریکہ کا کنٹرول ہے۔فوڈ انڈسٹری میں امریکہ ایک جائنٹ جن کا کردار ادا کررہا ہے۔افغانستان کی اس جنگ میں امریکہ نے بہت فائدہ اٹھایا۔اسلحہ انڈسٹری اورپرائیویٹ ڈیفنس کنٹریکٹرز نے اربوں کھربوں کمائے۔ جنگ کے ماحول کو تازہ رکھنے کیلئے میڈیا نے مال کمایا۔خطے میںسینکڑوں این جی اوز بنیں جن پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔ان این جی اووز کا مقصد مذہبی رواداری کو ثبوتاڑ کرنا ، خطے میں بے حیائی کا سیلاب لانا، تعلیمی اداروں ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر فحاشی و عریانیت کی یلغار۔ یہ این جی اووز کے مقاصد اور اہداف تھے ، جن میں وہ کامیاب رہے۔ خطے میں بیس سال پہلے کا ٹی وی، تعلیمی ادارے، سوشل میڈیا اس بات ثبوت ہے۔فحاشی و عریانیت نے فروغ پایا۔ میرا جسم میری مرضی ، لبرل مافیہ اتنی جرآت سے کام اسلئے کرتے ہیں چونکہ انکے پیچھے فنڈنگ کرنے والی عالمی طاقتیںہیں۔
طالبان کے آنے کے بعد انکا زور ٹوٹ جائے گا۔ اور انکی بے لگامی میں وہ شدت نہیں رہے گی۔ میرا دل کہتا ہے کہ آنے والے دنوں میں میرا جسم میری مرضی کے گماشتوں کو تشدد اور مار پٹائی کا سامنا کرنے پڑے گا۔مشرف دور سے جو لبرل آنٹیاں اور کے پروردہ بدمعاش اسمبلیوں میں پہنچ رہے ہیں یہ خونی لبرلز کمزور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
بیس سال بعد افغانستان کا ماحول تبدیل ہوچکاہے۔ طالبان بدلے بدلے اور سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ جدید دور اور ترقی کے ماحول میں نہ افغان عوام وہ ہیں اور نہ طالبان ہی ماضی والے وہ ہیں۔ اْنکی ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کے سبھی معترف ہیں۔؟ـطالبان کے ترجمان نے مغربی میڈیا کے پراپگنڈہ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عورتوں کو حجاب میں کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔انکا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ اور افغانستان میں ٹرینگ کیمپ بنائے تھے۔آئے روز دھماکے کروائے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی شکست سے بھارت کو افغانستان میں ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے طالبان کو چیلنج کردیا ہے۔ جسکے جواب نے طالبان کا کہنا ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں ہتھیار ڈال دیں وگرنہ انجام کیلئے تیار رہیں۔ وادی پنج شیر کی طرف طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ چاروں طرف سے وادی کو گھیر لیا گیا ہے۔افغان مزاحمتی فورس اور طالبان کی باقاعدہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ مزاحمتی فورس کو بھارت کی مدد حاصل ہے۔ بھارت خطے میں پرو پاکستان فورسسز کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ پتھر کے زمانے میں رہنے والے طالبان نے امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اکتیس اگست تک کابل ائیرپورٹ خالی نہ کیا گیا تو اپنے چھ ہزار فوجیوں کے تابوت لے جانا۔امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ اکتیس اگست تک ہم تمام فورسسز افغانستان سے نکال لینگے۔ اْن کاکہنا ہے کہ ابھی تک طالبان نے معاہدے کے مطابق امریکی فورسسز کے انخلاء میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔ قارئین کرام ! آج کی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہار گیا۔ سید منور حسن مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کا بیانیہ جیت گیا۔اللہ بارک افغانستان اور خطے میں امن فرمائے طالبان کو مکمل کامیابی سے ہمکنار فرمائے ۔آمین