فلسفۂ شہادتِ امِام حسین

0
198
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

گذشتہ سے پیوستہ
آپ نے 28 رجب 60 ہجری میں اپنے نانا کے شہر کو ہمیشہ کیلئے ترک کیا۔ ٣ شعبان شب جمعہ کو 60ھ وارد حرم الٰہی ہوئے۔ آپ نے چار ماہ اور پانچ دن جوار خانہ کعبہ میں عبادت کے عالم میں گزارے۔ کوفہ کے مصلحت پسندوں نے امام عالی مقامکو متعدد خطوط بھیجے کہ وہ کوفہ تشریف لائیں۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت مسلم بن عقیل کو با اعتماد سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کے حالات سے خبر دیں۔جنہیں کوفہ میں بے دردی سے قتل کردیا گیااور ان کے بچوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا جو بعد ازاں شہید کر دئیے گئے۔
٨ ذی الحج کو آپ مکہ سے عازم کربلا ہوئے۔ آپکے ساتھ بوڑھے جوان بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ آپ کومدینہ سے عبداللہ بن عباس۔ محمد بن حنفیہ اور حرم رسول حضرت ام سلمہ نے روکا تھا۔ جبکہ امام نے یہ کہہ کر رخت سفر باندھا کہ اسلام کیلئے ہر قربانی دوں گا۔مکہ سے نکلتے ہی آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہبن جعفر طیار کا خط ملا جس میں عراق نہ جانے کا مشورہ تھا جسے آپ نے قبول نہ فرمایا امام حسین کے اطمینان میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔
منزل حاجر سے آپ نے کوفے والوں کو خط تحریر فرمایا جس میں انہیں ان کا وعدہ یاددلایا گیا۔قصر بنی مقاتل پر عبداللہابن حر جحفی ملے۔ جبکہ منزل اشراف پر آپ نے محرم کا چاند دیکھا اور یہیں پر لشکر حر سے ملاقات ہوئی اور حر سمیت لشکریوں نے امام کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے حکم دیا کہ لشکر حر کو پانی پلایا جائے باقی ماندہ پانی ان کے گھوڑوں کو پلایا گیا۔حر نے امام سے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ آپکو زندہ قید کر کے کوفہ لے جائیں۔ آپ نے اپنے جواب میں دنیا بھر کے انقلابی اذہان کو ایک خط فکر دیا اور فرمایا کہ میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں کوفہ میں خاموشی سے قتل کردیا جاؤں۔امام مظلوم نے حر کے جواب میں یہ بھی فرمایا تھا میں راستہ دکھانے والا ہوں راستہ بدلنے والا نہیں ہوں۔اس ایک جملے نے حر کے ایمان پر پڑی ہوئی گرد جھاڑ دی۔
٢ محرم آپ وارد کربلا ہوئے اور 60ہزار درہم کے بدلے میں4مربع میل اراضی کو اہل غاضریہ کے بنی اسد قبیلے سے خریدفرمایا۔ کربلا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی آپ نے حقوق بشر کا پہلا زریں اصول رقم کردیا۔ ورنہ حکومتی معاملات اور ہنگامی حالات میں خرید وفروخت کی باریکیوں کا خیال کون رکھتا ہے علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے کہ اسی سرزمین سے حضرت آدم ،حضرت نوح ، حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل حضرت موسیٰحضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ جیسے انبیاء کا بھی گزر ہوا جنہیں مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔ سات محرم 61ھ کو سادات بنی ہاشم کیلئے فوج اشقیاء نے پانی بند کردیا۔
عاشورہ کی شب امام حسین نے اعداء کو ایک رات کی مہلت دی۔ امام عالی مقام علیہ السلام آخری وقت تک جنگ سے کنارہ کشی فرماتے رہے مگر جب فوج اشقیاء نے ہدایت قبول کرنے سے صراحاً انکار کر دیا تو پھر اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے امام اپنے اہل بیت وانصارکو لیکر میدان میں وارد ہوئے۔ حبیب ابن مظاہر۔ مسلم بن عوسجہ۔ عابس شاکری۔ بریر ہمدانی۔ نافع ابن ہلال۔ حر ریاحی۔وہب کلبی۔زہیر قین۔سعید۔اسلم ترکی ،بَجَلی اور جون جیسے اصحاب اورپھر حضرت عباس ۔ علی اکبر ۔حضرات عونومحمد۔ قاسم۔ عبداللہ۔جعفر۔ عثمان اولاد عقیل جیسے قرابتداروں نے میدان جنگ میں وہ جوہر دکھائے کہ جس کی نظیر ناممکن ہے۔ آخر چھ ماہ کے علی اصغر کو بھی قربان کرکے خود سر کو سجدے میں رکھ دیا۔ ابن صفی نے خوب نقشہ کھینچا۔
تہہ شمشیر سجدہ اور ایسا معتبر سجدہ
بتااے بے نیاز اب اعتبار بندگی آیا
آپ نے فرمایا تھا ”اگر دین محمدی کی بقا ء میرے قتل کے سوا ممکن نہیں تو تلوارو آئو مجھ پر ٹوٹ پڑو ” آپ کی قربانی سے ہر دور کے مظلوموں اور محروموں کو وقت کے جابر وظالم سے ٹکرانے کا درس بھی ملا اور ضرورت پڑنے پر اسلام کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی تلقین بھی ہوئی۔ حضرت امام علی کے سجدے کی تکمیل آپ نے کی۔ جب کہ خطبے کی تکمیل آپکی ہمشیرہ جناب زینب نے کوفہ وشام کے بازاروں اور درباروں میں کی۔ شاعر نے خوب کہا۔
ایک سجدہ علیکا باقی تھا
ختم کردی حسیننے وہ نماز
ایثارشبیری سے اسلام ہمیشہ کیلئے بقا پاگیا اور فرعون وہامان قارون نمرود شداد یزیدجیسی قوتیں ہمیشہ کیلئے شکست کھا گئیں۔
پیدا ہر ایک دور میں ہوتے رہے یزید
لیکن کسی حسینکی گردن میں خم نہیں
امامکے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین نے بیماری کے باوجود خطبے دے کر کوفہ وشام کے لوگوں کو یزید کے خلاف عملی جہاد تک آمادہ کرلیا۔ جب یزیدنے دربار میں سید سجاد سے پوچھا شہزادے اس جنگ میں کون جیتا تو آپنے فرمایا کہ جس کے نانا کا نام قیامت تک اذان میں شامل رہے گا۔
جب یزید نے تفاخر کرنا چاہا اور اہل بیت کی توہین کرنے کیلئے زبان دراز ی کی تو سیدہ زینب نے اس جملے سے اس کا دندان شکن جواب دیا ” یزید اگر آج رسول ۖ زندہ ہوکر آجائیں تو بتا وہ تیرا ساتھ دیں گے یا ہمارا ساتھ دیں گے؟ ” دربار میں موجود عیسائیوں نے یزید کو شرمندہ کردیا۔ پیغمبر اکرمۖ نے ارشاد فرمایا کہ حسناور حسین جوانانِ بہشت کے سردار ہیں۔نیزفرمایا حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کا سفینہ ہیں۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ حسین کا دو ست میرا دوست اور حسینکا دشمن میرا دشمن ہے۔
صحابہ کراماور تابعین سب امام حسین سے محبت رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ جب امام حسین کو دیکھتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو آجاتے۔ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر گھوڑا دوڑاتے اور بھوکے پیاسے شام تک گئے تھے اور انہوں نے یزید سے کہا تھا کہ جو ظلم تم نے کیا یہ تو رومی ترکی بھی نہ کرتے ۔ مگر یزید نے انہیں ایک خط کے بہانے خاموش کرادیا۔
شاعر مشرق نے فرمایا !
غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
اﷲ اﷲہائے بسم ا پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
بحر حق درخاک وخون غلطیدہ است
پس بنائے لا الٰہ گردیدہ است
نقشِ الا اﷲ بر صحرا نوشت
سطرعنوان نجات ما نوشت
موسیٰ و فرعون و شبیر ویزید
ایں قوت از حیات آمدیدید
مدعائش سلطنت پودے اگر
خود نکردے باچنین سامان سفر
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش اوشعلہ ہا اندوختیم
ریگ عراق منتظر کشت حجاز تشہ کام
خون حسین بازدہ کوفہ وشام خویش را
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دل گیری
نماز عشق حسین حجاز ہے گویا
یہی نماز خدا کی نماز ہے گویا
جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہے
حق تعالیٰ کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے
رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں میں
کیا در مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
خدا سب مسلمانوں کو امام حسین علیہ السلام اوران کے باوفا اصحاب کے راستے پر چلنے کی توفیق دے اور کردارِ حسینی سے محبت اور کرداریزیدی سے نفرت کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here