امام خمینی3 جون 1989میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے کروڑوںمداحوں کو سوگوار چھوڑ کر دار فنا سے دار بقا کی طرف روانہ ہوئے۔میں ان کی شخصیت سے زمانہ طالب علمی ہی میں تھوڑا بہت واقف ہو گیا تھا۔انقلاب سے ایک سال قبل اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے مزید تعارف ہوا۔مجھے اس دور کے اخبارات اور ٹی وی کی خبریں آج تک فراموش نہیں ہوئیں۔جن میں کبھی یہ دکھایا جاتا کہ ایران کی نہتی عوام پر ٹینک چڑھائے جا رہے ہیں۔ گولیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ آنسو گیس کی شیلنگ ہو رہی ہے۔لاٹھی چارج ہو رہا ہے۔ امام خمینی کے حمایتیوں کو سر عام ٹارچر کیا جا رہا ہوتا۔ پھر وہ شہ سرخی بھی دیکھی کہ بوریہ نشین مجتہد اعظم پیرس سے اللہ کی ذات پر توکل کر کے تہران کے ائیر پورٹ پر جہاز سے اتر جاتا ہے۔شاہ کی ائیر فورس سلامی دیتی ہے۔شاہ فرار ہو چکا ہوتا ہے۔وزیر اعظم شاہپور بختیار کی حکومت میں یہ مرد مجاہد بہشت زہرا کے قبرستان میں حاضری دے کر ایک مقامی سکول کو اپنا ہیڈ کواٹر بناتا ہے۔اور اپنے ہم وطنوں کو حکم دیتا ہے کہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے گھروں سے باہر نکل کر زمین کو ہلا دیں اور اپنی آہوں سے عرش کو لرزا دیں۔شاہپور بختیار فرار ہو جاتا ہے ۔ ریڈیو اور ٹی وی پر انقلابیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ جیلوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔اور ولایت فقہی کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔امام خمینی کی عہد ساز شخصیت کے چند پہلو اس تحریر میں سپرد قرطاس کرتا ہوں۔1:- نجف میں 13 سالہ قیام کے دوران ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے روضہ مولائے کائنات پر 9 بجے شب حاضری نہ دی ہو۔2:- نجف ہی میں جب آپ کے بڑے فرزند آیت اللہ مصطفی خمینی کو شہید کر دیا جاتا ہے تو آپ شہید کی لاش پر چادر ڈال کر پہلے اپنا درس خارج پڑھاتے ہیں اور درس کے آخر میں جنازے کا اعلان فرماتے ہیں۔3:- پیرس میں جلا وطنی کے دوران نماز جمعہ و جماعت کا باقاعدہ قیام فرماتے ہیں ۔4:- جس جہاز پر آپ پیرس سے تہران روانہ ہوتے ہیں اس میں اپنی عبا بچھا کر نمازوں کو کھڑے ہو شرائط کے ساتھ ادا فرماتے ہیں۔5:- جب آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ تہران کے ائیر پورٹ پر آپ کے جہاز کو توپوں سے اڑایا جا سکتا ہے تو فرماتے ہیں جب ہدف نیک ہو تو قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔6:- آپ کی وجاہت اور رعب کا یہ حال ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص آپ سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کر سکتا۔7:- جب پارلیمنٹ کے 72 ارکان بشمول اسپیکر آیت اللہ بہشتی شہید کر دئیے جاتے ہیں اور صدر اور وزیر اعظم بم سے اڑا دئیے جاتے ہیں تو دونوں موقعوں پر فرماتے ہیں ہیں دوست چلے گئے ہیں مگر خدا ہے۔8:- آپ معمولات حیات میں بہت ہی سادہ پائے گئے ہیں۔سادہ غذا کھاتے ،سادہ لباس پہنتے ، مرتے دم تک کرایہ کے مکان میں رہے۔وفات کے وقت ان کے اکاونٹ میں 1200 تومان تھے۔9:- اقتدار میں اپنے فرزند یا پوتوں ، نواسوں کو شامل نہیں فرماتے۔10:- زندگی کے آخری دنوں میں بھی جب کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی تو سہارا لے کر کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اس کڑی حالت میں بھی مستحبات کو بھی ترک نہیں فرمایا۔
11:- آپ کی وفات کے بعد آپ کے اثاثوں میں سوائے جدی پشتی مکان کے کچھ نہیں ملتا۔
12:- میں نے بیسیوں بار آپ کی زیارت کی۔ رعب اور دبدبہ کے باوجود انتہائی خوش اخلاق پایا۔
13:- آپ خود سے چھوٹے لوگوں کو بھی تو یا تم کی بجائے آپ کہہ کر پکارتے تھے۔
14:- آپ اپنے مخالفین سے انتقام لینے کی بجائے ان کو انعام و اکرام سے نوازتے۔
15:- آپ نے پچھلی صدی کے عظیم رہبر و رہنما ہونے کے باوجود طالبعلمانہ سادگی کو ترک نہ کیا۔
16: آپ بڑی سے بڑی مصیبت پر صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔
17:- آپ سخت غصہ میں بھی اعتدال اور میانہ روی کو ترک نہیں فرماتے ۔
18:- آپ سیاسی مصروفیات کے باوجود مذہبی فرائض اور نوافل کو کبھی ترک نہ کرتے۔
19:- آپ نے عمر بھر تلاوت قرآن، قیام الیل اور خدمت خلق کو کبھی ترک نہ کیا۔
20:- جب آپ کے بیٹے علامہ احمد خمینی نے آپ کی تدفین کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے جب تک میں زندہ تھا اپنے بدن کا خیال رکھنا میری ذمہ داری تھی۔ جب روح نکل جائے گی تو اب تمہاری ذمہ داری ہوگی ۔ اپنی صوابدید کے مطابق پوری کرنا۔
باقی آئندہ
قارئین!
میں نے بیس خصوصیات اختصار کے ساتھ اپنے مرشد کی برسی کے موقع پر لکھ دی ہیں ۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس عظیم رہبر نے زندگی کی آخری تحریر مجھ فقیر کے لئے لکھی تھی۔اگرچہ اس وقت علیل بھی تھے۔ آپ کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تحریر مجھ فقیر کے پاس موجود ہے۔ برسی کے موقع پر اللہ کی ذات سے دست بدعا ہوں کہ ہمارے مرشد کو مزید بلندی درجات مرحمت فرمائے اور ہم سب کو آپ کے راستے پر چلنے کی توفیق خیر عطا فرمائے۔
ایں دعا از من و از جملہ جہان آمین باد۔
٭٭٭