ٹرمپ کی آمد خوش آئند،غزہ جنگ بندی معاہدہ!!!

0
55
شمیم سیّد
شمیم سیّد

قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کے مطابق، قطر، مصر اور امریکہ کی مشترکہ ثالثی کی کوششوں سے حماس اور اسرائیل کے مابین غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا ہے۔۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں 46,700 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ تقریبا 92,537 افراد زخمی ہوئے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ اسرائیل، یہودی بستیوں کی توسیع جاری رکھے ہوئے ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی اور فلسطینی علاقوں سے ان کے انخلا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دوسری طرف بہت سے اسرائیلی سیاست دان آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا اکٹھے ہوکر، اسرائیل کے ان عزائم کے تدارک کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرے۔ اسرائیل اور غزہ کے مابین سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے بالآخر سیز فائر کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت نے حماس کے ساتھ نئی غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے، دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے بعد غزہ کی پٹی میں اپنی “مکمل ذمہ داریاں” سنبھالنے کے لیے تیار ہے ،اس جنگ کی وجہ سے غزہ کی تقریبا 2.3 ملین لوگوں پر مشتمل مکمل آباد ی اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکی ہے۔ دوسری طرف ایک اندازے کے مطابق 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں کیے گئے حملوں کے دوران اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت، فلسطینی قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے اور غزہ میں پائیدار امن کی بحالی کو یقینی بناتے ہوئے بالآخر دونوں فریقوں کے درمیان مستقل جنگ بندی ہوسکے گی۔ اس معاہدے میں غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی اور تقسیم ، اسپتالوں، صحت کے مراکز اور بیکریوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ شہری دفاع کے سامان اور ایندھن کی فراہمی شامل ہے جبکہ جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں سے محروم ہونے والے بے گھر افراد کی رہائش کے لیے انتظامات کرنا شامل ہیں۔ امریکہ، مصر اور قطر ، جنہوں نے معاہدے کی ثالثی میں مدد کی ہے، معاہدے کے ضامن کے طور پر کام کریں گے۔ ان کا کردار اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ دونوں فریق معاہدے پر مکمل طور پر عمل کریں تاکہ ایک پائیدار جنگ بندی اور خطے میں دیرپا امن قائم ہوسکے۔ اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والی یہ جنگ بندی تین مرحلوں پر مشتمل ہے جس میں پہلا مرحلہ 42 دن یا چھ ہفتے جاری رہے گا، اور ” مکمل جنگ بندی” کے مرحلے تک پہنچ سکیں گے۔ حماس 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی جن میں “شہری خواتین، خواتین فوجی، بچے، بوڑھے اور بیمار اور زخمی شہری” شامل ہیں جبکہ بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو رہا کیا جائے گا۔ پہلے دن تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا جبکہ باقی تبادلے وقفے وقفے سے چھ ہفتوں میں ہوں گے اسی طرح پہلے مرحلے کے دوران، اسرائیلی فوجی غزہ کے “تمام” آبادی والے علاقوں سے انخلا کریں گے، جب کہ فلسطینی پورے غزہ میں اپنے علاقوں میں واپس جا سکیں گے۔ پہلے مرحلے میں اسپتالوں، کلینکوں اور بیکریوں کی بحالی سمیت غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں بھی اضافہ ہوگا، جس میں روزانہ سینکڑوں لاریوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت ہوگی۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے تفصیلی مذاکرات، جنگ بندی کے 16ویں دن شروع ہوں گے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ واقعی مقررہ دن تک شروع ہوجائے گا کیونکہ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ کیسے آگے بڑھتا ہے۔ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں باقی زندہ یرغمالی، جن میں مرد بھی شامل ہیں، مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیے جائیں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل نے جن 1,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، ان میں سے 190 قیدی 15 سال یا اس سے زیادہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ہی غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا بھی ہو گا۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو شامل ہوگی۔ اندازے کے مطابق جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں جبکہ باقی یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی بھی شامل ہے۔ جنگ کے آغاز سے ہی امریکہ اور اسرائیل جنگ بندی کی مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق جنگ بندی سے صرف حماس کو فائدہ ہوگا۔ جنگ کو روکنے کے لیے امریکہ کی طرف سے کی گئی سفارتی کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو امریکہ کی کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ جنگ کے آغاز سے امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش پونے والی قراردادوں کو ویٹو کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ واشنگٹن جنگ بندی کی بجائے شہریوں کے تحفظ کے لیے لڑائی میں وقفے کی حمایت کرتا رہا ہے جس کے بدولت حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی اور غزہ کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت ملتی رہی ہے۔ جنگ بندی کا یہ معاہدہ بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی اور امریکہ کی روایتی پالیسی کا جزو معلوم ہوتی ہے۔ تین مرحلوں پر مشتمل اس جنگ بندی کے معاہدے کی کامیابی کے کیاامکانات ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل سوال ہے جس کا حتمی جواب دینا مشکل ہے۔ البتہ کچھ ایسے نکات ہیں جو حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے سیز فائر کے معاہدے کی کامیابی کے امکانات پر سوالیہ نشانات اٹھاتے ہیں۔ اسرائیل کے اہم جنگی مقاصد میں سے ایک حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا تھا۔ اگرچہ اسرائیل نے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن حماس اب بھی دوبارہ منظم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، جنہوں نے کئی مہینوں تک جنگ بندی کی مزاحمت کی ہے اور اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیںکہ حماس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے، اسرائیلی اسیروں کی بازیابی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر دیں گے اور کسی نہ کسی طرح حماس کو معاہدے کی ناکامی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ نیتن یاہو کا ظاہرا مقصد فلسطینی گروہ کو سزا دینے کا ہوگا جبکہ حقیقت میں وہ اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے یہ قدم اٹھائیں گے۔ ماضی میں بھی اسرائیل کا طرز عمل یہی رہا ہے۔ بین الاقوامی کرائسز گروپ کے ساتھ وابسطہ اسرائیل اور فلسطین کے امورکی ماہر مائراو زونزین کے مطابق، “اسرائیل جنگ بندی کو توڑنے اور یہ ظاہر کرنے میں بہت اچھا ہے کہ یہ اس کی غلطی نہیں تھی۔” یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک غاصب طاقت ہے اور مشرق وسطی پر اپنی اجاری داری اور اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کبھی بھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔ بلکہ امریکہ، اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے حماس سمیت فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا صفایا کرنے بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنے کی پالیسی پر اسرائیلی حکومت کا مددگار رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here