امیگریشن پابندیاںبرقرار

0
130

نیویارک (پاکستان نیوز) سپریم کورٹ نے امیگریشن پر پینڈیمک دور کی پابندیوں کو غیر معینہ مدت تک برقرار رکھا ہے ، جس سے امیگریشن کے حامیوں کی امیدیں ماند پڑ رہی ہیں جو اس ہفتے ان کے اختتام کی توقع کر رہے تھے۔عدالت کے اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امیگریشن کی ٹائٹل 42 نامی پالیسی کو ختم نہیں کرا سکے گی جس کے تحت 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ملک سے نکال دیا جائے گا جو امریکہ میں پناہ لینا چاہتے تھے۔صحت عامہ سے متعلق یہ پالیسی سب سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا کے شروع میں نافذ کی گئی تھی اور یہ اس وقت سے نافذ ہے۔ منگل کو ایک فیصلے میں، عدالت نے اس عارضی بندش میں توسیع کر دی جسے چیف جسٹس جان رابرٹس نے گزشتہ ہفتے جاری کیا تھا۔عدالت کے حکم کے تحت کیس پر فروری میں بحث کی جائے گی اور ججز کی جانب سے کیس کا فیصلہ کرنے تک بندش برقرار رہے گی۔ان پابندیوں کے تحت عہد ے داروں نے امریکہ میں پناہ کے 2 اعشاریہ پانچ ملین متلاشیوں کو نکال دیا اور سرحد پر پناہ کی درخواست کرنے والے بیشتر لوگوں کو کویڈ۔ 19 کے پھیلاؤ کی روک تھام کی بنیاد پر واپس بھیج دیا۔امیگریشن کے ایڈو کیٹس نے یہ کہتے ہوئے اس پالیسی کے خاتمے کے لیے مقدمہ دائر کیا کہ یہ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے امریکہ فرار ہو نے والے لوگوں کے لئے امریکی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کیخلاف ہے۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ یہ پالیسی پرانی ہے کیوں کہ کرونا وائرس کا علاج بہتر ہو گیا ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے میں سامنے آیا ہے جب ہزاروں پناہ گزین میکسیکو کی جانب سرحد پر اکٹھے ہو چکے ہیں ، پناہ گاہیں بھر رہے ہیں اور ان وکلا ء کو پریشان کر رہے ہیں جو ان کی دیکھ بھال کے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔امریکی سول لبرٹیز یونین کے ایک وکیل لی گیلرنٹ نے ، جو ٹائٹل 42 کے استعمال کے خاتمے کے لیے دلائل دے چکے ہیں ، کہا کہ ہم پناہ کے ان تمام مایوس متلاشیوں کے لیے بہت پریشان ہیں جو اس پالیسی کی وجہ سے مسلسل پریشان رہیں گے لیکن ہم اس پالیسی کے آخر کار خاتمے کے لیے کوشش جاری رکھیں گے۔منگل کے فیصلے میں خاص طور پر یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ اس مسئلے کا جائزہ لے گی کہ آیا ریاستوں کو ٹائٹل 42 پر قانونی کارروائی میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔ وفاقی حکومت اور امیگریشن کے وکلاء دونوں یہ دلیل دے چکے ہیں کہ ریاستوں نے مداخلت کرنے میں بہت دیر کر دی اور اگر وہ اتنا زیادہ عرصے تک انتظار نہ کرتیں تو بھی ا ن کے پاس مداخلت کا کوئی قابل قدرجواز موجود نہیں ہے۔جسٹس نیل گورسچ اور کیٹنجی براو ن جیکسن نے کہا کہ اگر عدالت یہ فیصلہ کر بھی لیتی کہ ریاستوں کو مداخلت کا حق حاصل ہے اور ٹائٹل 42 کو قانونی طور پر منظور کر بھی لیا جاتا تو بھی جس ہنگامی صورت حال کے تحت وہ احکامات جاری کیے گئے تھ،ے بہت عرصے سے ختم ہو چکی ہے۔ججوں نے لکھا کہ موجودہ سرحدی بحران کویڈ کا کوئی بحران نہیں ہے ، اور عدالتوں کو کسی ہنگامی صورت حال کے لیے بنائے گئے انتظامی احکام کو جاری رکھنے کا کام صرف اس لیے نہیں کرنا چاہئے کہ منتخب عہدیدار ایک مختلف ہنگامی صورت حال سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم قانون کی عدالت ہیں، کسی آخری چارہ کار کے پالیسی ساز نہیں۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرائن جین پئیر نے منگل کے روزکہا کہ بائیڈن انتظامیہ بلا شبہ حکم کی تعمیل کرے گی اور عدالت کی نظر ثانی کے لیے تیار ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ٹائٹل 42 کے حتمی خاتمے تک سرحد پر معاملات سے محفوظ ، منظم انسانی طریقے سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں اور امیگریشن کے لیے قانونی راستوں کی توسیع جاری رکھیں گے۔ٹائٹل 42 عوامی صحت کاایک اقدام ہے ، نہ کہ امیگریشن کے نفاذ کا کوئی اقدام اور اسے غیر معینہ مدت کے لیے توسیع نہیں دی جانی چاہئے۔کچھ ریاستوں نے غیر معمولی سانحوں سے خبردار کیا ہے۔ نومبرمیں ایک وفاقی جج نے وکلا کی طرفداری کی اور پالیسی کے خاتمے کے لیے 21 دسمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی۔قدامت پسند جھکاو رکھنے والی ریاستوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی اور بتایا کہ مائیگریشن میں اضافہ عوامی سہولیات کی فراہمی پر بوجھ ڈالے گا اور ایک ایسے غیر معمولی سانحے رونما ہو سکتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔عدالت کے سامنے یہ مسئلہ زیادہ تر ضابطے کے اس سوال پر پیچیدہ شکل اختیار کر رہا ہے کہ آیا ریاستوں کو مقدمے میں مداخلت کی اجازت دی جانی چاہئے۔ریاستوں کے ایک ایسے ہی گروپ نے ، اپریل میں بیماریوں کے کنٹرول اور بچاؤے مرکز سی ڈی سی کی جانب سے اس پالیسی کے خاتمے کے اعلان کے بعد ایک مختلف ڈسٹرکٹ کورٹ کی ایک زیریں عدالت میں پابندیوں کے خاتمے کو روکنے کا ایک مقدمہ جیتا تھا۔ریاستوں نے وکلاء کے مقدمے میں جج کے نومبر کے حکم تک، اس کیس میں حصہ لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ کیوں کہ انتظامیہ نے بنیادی طور پر ٹائٹل 42 کی پالیسی کا دفاع ترک کر دیا ہے اس لیے انہیں اس میں قدم رکھنے کے قابل ہونا چاہیے۔انتظامیہ نے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے، حالانکہ اس نے قانونی کارروائی کے جاری رہنے تک ٹائٹل 42 کو برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here