فیس بُک پر ہوش رُبا حسینائیں قابض !!!

0
71
حیدر علی
حیدر علی

ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے میں نے لوٹو جیت لیا ہو ، درجنوں لڑکیاں مجھ پر اچانک وارے نیارے ہوگئیں،ہر ایک نے فیس بُک سے میرا پتہ حاصل کیا تھا، ہر ایک کا مجھ پر جان چھڑکنے کا جواز یہی تھا کہ اُنہیں فیس بُک پر شائع ہونے والی میری تصویر بہت پسند آئی تھی، کلکتہ سے تعلق رکھنے والی پُتل دیدی نے جب مجھے ایک ٹیکسٹ بھیجا اور تحریر کیا کہ اُسے میری تصویر جو ساحل سمندر پر دوڑتے ہوئے کھینچی گئی تھی بہت پسند آئی ہے اور اُسی کے ساتھ اُس نے مجھ سے دوستی کی پیشکش بھی کی تھی، میں نے سوچا کہ اِس سے بہتر کیا موقع ہوسکتا ہے ، میری بنگالی زبان میں بھی روانی آجائیگی اور ساتھ ہی ساتھ اُس کا وصال بھی نصیب ہوجائیگا ،یہ اور بات ہے کہ اُس نے مجھے بتایا کہ کلکتہ سے تعلق رکھنے کے باوجود نہ ہی اُس کی بنگالی اور نہ ہی ہندی اچھی ہے اور وہ یہ دونوں زبانیں لڑکھڑا کر بولتی ہے ، اُس نے مجھ سے میری عمر دریافت کی ، میں نے جواب دیا کہ عمر کے لحاظ سے میرا نمبر تو زیادہ ہے ، لیکن پھر بھی میں جوان ہوں ، پانچ میل ایک سانس میں دوڑ لیتا ہوں اور بہت سارا کام صحیح طور سے کر لیتا ہو ، پُتل نے جواب دیا کہ درست ہے ، میں جوان معلوم ہوتا ہوں ، اُس نے مجھے اپنی عمر بتائی جو بتیس سال تھی ، پُتل نے مجھے اپنی تصویر بھیجی جسے دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ اگر وہ مجھے مل جائے تو میری تقدیر نگوں ہوجائے اور اُسکی چاہت کے سوا اِس دنیا میں رکھا کیا ہے ، پُتل مجھے صبح شام اور دِن میں دس مرتبہ ٹیکسٹ کرتی رہی، اور اُس کا جادو بھر پور طریقے سے میرے سر چڑھ گیا ، پُتل نیویار ک میں سکون پذیر تھی لیکن ایک مختصر عرصے کیلئے سان فرانسسکو اپنے چچا کے گھر گئی ہوئی تھی ، اُس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ موسم گرما میں نیو یارک واپس آجائیگی، میں نے اُسے بھارتی نغمے کا ایک بند جسکا بول تھا ” میری جان تم پر صدقے ، میری زندگی میں آکر ، چاہت کا رنگ بھر دو ” اُس نے اُسے بہت پسند کیااور کہا کہ وہ بہت جلد مجھ سے ملے گی، میں نے اُس سے پوچھا کہ اگر وہ چاہتی ہے تو میں کروز پر جانے کیلئے دو ٹکٹ بُک کروالوں، اُس نے مشورہ دیا کہ کچھ دِن کیلئے اِسے التوا میں رکھو،اُس نے مجھے رسما”بتایا تھا کہ وہ ایک فیشن ڈیزائینر ہے ، لیکن سائڈ میں گولڈ کی ٹریڈنگ بھی کرتی ہے، میں نے اُس کی باتوں پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی، کیونکہ ہر نوجوان لڑکے یا لڑکیاں یہاں کچھ نہ کچھ کرتے ہیں پھر اچانک ایک شام اُس نے مجھے ایک ٹیکسٹ بھیجا اور کہا کہ اُس نے گولڈ کی ٹریڈنگ کی تھی اور گولڈ کی قیمت اچانک کافی بڑھ گئی تھی ، اِسلئے اُس نے کافی منافع کمایا ہے، میں نے اُسے مبارکباد دی لیکن اُس کا اصرار تھا کہ میں بھی گولڈ کی ٹریڈنگ میں پچاس ہزار ڈالر کی رقم اُس کی توسط سے سرمایہ کاری کروں اور منافع کماؤں، میں نے جواب دیا کہ میں نفع و نقصان کے دھندے میں پھنسنا نہیں چاہتا، میں اُس کی باتوں کو یونہی ٹالتا رہا، وہ گولڈ کی ٹریڈنگ پر اصرار کرتی رہی اور میں محبت کی چاہت کا اظہار کرتا رہاتاہم مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہمارے تعلقات بوجھ بنتے جارہے ہیں، اور بڑی تیزی سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں، پُتل نے مجھے صرف اپنے واٹس اپ کا نمبر دیا تھا اور جب بھی میں اُس پر کال کرتا تو کوئی نہیں اٹھاتا لیکن ٹیکسٹ سے جواب آتے کہ فی الحال وہ مصروف ہے اور مجھے کال بیک کرے گی، اُس کا یہ طرز عمل میری پریشانی کا باعث بن گیا تھا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ جیسے وہ لاس اینجلس میں مقیم ہونے کے بجائے انڈیا یا انگلینڈ میں ہے، مزید برآں روزانہ کا پُتل کا مسیج آجانا کہ ” میں بہت خوش ہوں کہ اسٹاک مارکیٹ کے اسرار و رموز کو سمجھنے اور اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کا فائدہ اب مجھے نظر آنے لگا ہے، گولڈ مارکیٹ اب تیزرفتاری کے ٹریک پر گامزن ہوگئی ہے، میں بیس ہزار ڈالر سے زیادہ نفع صرف ایک ٹریڈ میں کمایا ہے، تم کہاں ہو، میں نے تمہیں کئی مرتبہ کال کی تھی لیکن تمہاری لائن منقطع تھی” اور پھر دوسرا مسیج ” تمہیں گولڈ کی ٹریڈنگ کیلئے دِن بھر کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، یہ شارٹ ٹرم ٹریڈنگ زیادہ سے زیادہ تیس سیکنڈ سے تین منٹ کا وقت لیتی ہے چونکہ یہ شارٹ ٹرم کی اسٹراٹیجی بھی ہوتی ہے ، اِسلئے اِس میں نقصانات کا خطرہ کم اور نفع کے امکانات وسیع ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی لڑکی جس کی شکل بھی میں نے نہ دیکھی ہو ، جس کی آواز بھی غیر معتبر ہو جسکا نام و پتہ بھی خلا میں معلق ہو اُسکی توسط سے سرمایہ کاری کرنا کہاں کی دانشمندی ہوگی؟لیکن میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ میری دوستی کوئی ایک خاتون سے نہیں بلکہ درجنوں سے ہوگئی ہے تو آئیے ملئے میری دوسری دوست خاتون سے یہ اپنا نام پری بتاتی ہے ، اور اِس نے تو حد کردیا، فیس بُک پر ڈائریکٹ مجھے اُردو، انگریزی رسم الخط میں مخاطب کردیا، اُس نے مجھے بتایا کہ وہ اسکار ڈے لا رینٹا میں ڈسٹری بیوٹر ہے، اور اُسکا تعلق ممبئی سے ہے، میں نے اُس کی اُردو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ” آپ کی اُردو بہت اچھی ہے جو اُردو یا ہندی بولتا ہے ، میں اُسے بہت پسند کرتا ہوں” اُس نے شکریہ ادا کیا، میں نے اُسے دہلی میں میری ملاقات ایک آٹو رکشہ والے سے ہوگئی تھی وہ بیان کردیا، میں نے کہا کہ ” جب میں دہلی گیا تھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ وہاں ہر کوئی وہی زبان بول رہا تھا جو میری تھی، حتی کہ ایک آٹو رکشہ والا جس کی پونی ٹیل جو پیچھے لٹک رہی تھی اور جس کی اُردو میں بھی روانی تھی اور جو پاکستان پر بے دریغ لعن طعن کر رہا تھا، لیکن یہ مجھے ناگوار نہ گزرا، کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہے، میں نے اُسے اپنے ہوٹل کے کمرے میں مدعو کیا اور ہم دونوں ایک عرصے تک باتیں کرتے رہے،پری نے مجھے پیشکش کی کہ میں اُس کے بینک میں جسکا کوئی نام و پتہ بھی نہ تھا تیس ہزار ڈالر کی رقم جمع کرادوں اور سات فیصد شرح سود کماؤں، امریکی بینک میں سی ڈی پر شرح سود پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here