”خان سچا ہے”

0
68
عامر بیگ

جب عمران خان کہتا تھا کہ افغانستان سے تمام مسائل کا حل مذاکرات میں ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ وہ طالبان خان ہے لیکن وقت ے ثابت کیا تین ٹریلین جنگ میں جھونک کر آخر کار عمران خان نے ہی مذاکرات کی راہ ہموارکی اور امریکہ کی گلو خلاصی ہوئی جب خیبر پختونخواہ کے نئے وزیر اعلی سہیل آفریدی کی نامزدگی پر واویلہ مچا کہ اسے اس بات پر قبولیت کی سند نہیں ملے گی کہ وہ آپریشن کی بجائے مذاکرات کا زبردست حامی ہے تو پشاور جاکر پریس کانفرنس میں گلا پھاڑ کر کہا گیا کہ آپریشن ہی واحد حل ہے کیا افغانیوں کو نہیں معلوم کہ ہمارا آپریشن اس قدر زور آور ہو گا کیا وہ بھول گئے تھے کہ امریکی جید صحافی کے کہنے کے مطابق افغانستان کے ناقابل شکست رہنے میں پاکستان کا ہاتھ ہے اور اگر اسی ہاتھ کی انگشت شہادت جی تھری کے ٹریگر پر ہو اور نشانہ افغانستان تو پھر انجام بارے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چائیے لیکن پھر ڈبل بارڈر گرم کرنا کہاں کی عقلمندی پر کیا کریں حکم حاکم کے سامنے چوں چرا کیسی ٹرمپ کے گن پاسنگ آٹ پر بھی گائے گئے کہ امریکی صدر نے بھی تو ابراہام اکارڈ کے معاہدے کی تقریب میں فیلڈ مارشل کے بارے میں جو الفاظ بولے تھے ایک خاص تقریب میں اس کا جواب اچھے جیسچر کے ساتھ دیا گیا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ حالیہ دوہا مذاکرات عمران خان اور وزیر اعلی سہیل آفریدی کے موقف کی فتح ہے اور اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہئے نہ صرف وزیر اعلی کے پی کے کو اس کے لیڈر سے ملاقات کی اجازت ملنی چاہیے بلکہ اس کے پاس جا کر اس کے صوبے کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ بھی کیا جانا چاہیئے منزلز سے ہونیوالی انکم اور این ایف سی ایوارڈ کے مطابق رقم کو پہلی فرصت میں اس صوبے کے عوام کے حوالے کیا جانا چاہیئے تاکہ اس صوبے کی عوام کو فائدہ ملے اور محرومی کا ازالہ ہو سکے ورنہ اسلام آباد کی سڑکوں سے معدنیات کی بو والا معاملہ نہ ہو جائے پانچ کروڑ کی عوام کا صوبہ کئی ملکوں کی آبادی اور رقبہ سے بھی بڑا ہے اور ہر طرح کی تہذیب کلچر اور دولت سے مالا مال ہے اور سب سے بڑی بات کہ وہاں ایک ہار منی ہے یہ لوگ محنتی اور جفاکش ہیں لہزا بند کمرے میں کسی بلڈی سیویلین کی موجودگی ضروری ہے تاکہ عام عوام کی بات بھی کی جا سکے مزید بران دوہا جا کر مذاکرات ضرور کریں لیکن اپنے ہاں بھی مذاکرات ہونے چاہئیں تاکہ مل بیٹھ کر حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا سکے ہماری معاشی حالت ایسی نہیں کہ ہم مزید سیاسی کشمکش کا زیادہ دیر تک شکار رہ سکیں تقریبا تمام بڑی غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر جا چکی ہیں انویسٹر کیوں کر ٹھہرے گا جب ملکی حالات ہی ٹھیک نہ ہوں ماراماری ہو کسی کے بھی گھر میں گھس کر اسے پکڑ کر دنوں تک غائب کر دیا جاتا ہو اور سب سے بڑھ کر عدلیہ لونڈی بن چکی ہو کہ عدل ہی نہ ہو بیچارہ انویسٹر رقم ڈوبنے پر کہاں دہائی دے کیس کہاں فائل کرے جبکہ اسے انصاف کی امید ہی نہ ہو یاد رہے کہ سیاسی حالت کا ڈائریکٹ اثر معاشی حالت پر ہوتا ہے اور انصاف ہی سے سیاسی نظام کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے غالبا عمران خان نے بھی یہی سوچ کر اپنی تحریک کا نام انصاف رکھا تھا وہ سچا تھا ۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here