پاکستان میں بحیثیت مجموعی یہ پہلی امریکہ مخالف تحریک ہے، جس میں ملکی سطح پر عوام کی جذباتی شرکت بھر پور نظر آئی ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسی تحاریک چلیں وہ اپنے آغاز سے کامیابی تک مختلف مراحل سے گزرتی رہیں۔ ایسی تحاریک کا آغاز کوئی اور گروہ کرتا ہے، خون کسی اور گروہ کا بہتا ہے اور کامیابی کا سہرا کسی اور کے سر بندھتا رہا ہے۔ پاکستان میں یوں تو امریکہ سے نفرت کا پودا گذشتہ ستر سالوں سے آہستہ آہستہ پروان چڑھتا رہا ہے لیکن گزشتہ بیس سال میں مملکتِ خداداد پاکستان پر ایسے گزرے ہیں کہ اس ملک کے دیندار اور اسلام سے محبت رکھنے والے طبقے نے امریکہ کا ایک کریہہ المنظر چہرہ دیکھا ہے۔ گذشتہ بیس سال، جس طرح پاکستانی حکمرانوں نے پاکستان اور اسلام کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر امریکہ کی خدمت کی، اس سے دلوں میں نفرت شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد امریکی تسلط کے تحت جو کچھ اس ملک میں ہوا ہے، ایسا شاید ہی کسی دوسرے ملک میں اس شدت سے ہوا ہو۔ مشرف کے گیارہ ستمبر کے فورا بعد امریکہ کے سامنے لیٹ جانے سے لے کر امریکی فضائیہ کو پاکستان میں اڈے دینے، طالبان کے خلاف خفیہ معلومات فراہم کرنے اور بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے تک جو کچھ ہوا، اس نے آغاز کے چند سال میں ہی شدید نفرت کا بیج دلوں میں بو دیا۔ لیکن بعد میں ہونے والے سانحات نے تو عقل و سوچ رکھنے والوں کے دلوں میں بھی یہ گرہ مضبوط کر دی کہ پاکستان کی تباہی و بربادی کی اصل وجہ صرف امریکی غلامی ہے۔ مشرف دور میں اسلام کے خلاف جتنے بھی قوانین منظور ہوئے، نظامِ تعلیم کو جس طرح سیکولر کیا گیا، این جی اوز کی سرپرستی سے جس طرح ایک ملحد اور سیکولر سول سوسائٹی پیدا کی گئی ان تمام اقدامات کے پیچھے امریکی گائیڈ لائن موجود تھی۔ پاکستان میں آل پاکستان ملحدین (یعنی خدا کے وجود کے منکر) افراد کے گروپ میں جو آج لاکھوں لوگ شامل ہوئے ان کی تربیت، تعلیم و ترویج اسی مشرف دور میں ہوئی جو امریکی باجگزاری کا دور تھا۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے قتلِ عام سے لے کر سوات و وزیرستان آپریشن تک تمام خونریزی اسی دور کا تحفہ ہے۔ وہ جو عقل و ہوش رکھتے ہیں، انہیں تو پہلے سے ہی یقین تھا کہ امریکہ دراصل ایک ایسا شیطان ہے جو ہر اس راستے کو مسدود کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی منزل کی طرف لے جاتا ہے۔ اس طاقتور شیطان کا خوف ایسا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق یورپ کے تمام ملکوں میں یہودیوں سے اب بھی نفرت پائی جاتی ہے۔ لیکن یہودیوں نے امریکی قوت کے بل بوتے پر ہولوکاسٹ کے ایسے قوانین ہر ملک میں پاس کروائے ہیں کہ آج ان ملکوں میں یہودیوں کے خلاف بات کرنا قابلِ دست اندازی پولیس جرم بھی ہے اور اس کی شدید سزا بھی۔ امریکہ کی اس شیطانیت کا ادراک آج سے ٹھیک 44 سال پہلے ایران کے تقریبا ہر سوچ سمجھ رکھنے والے طبقے کو ہو چکا تھا۔ یہ ادراک پندرہ سال اذیت میں گزارنے کے بعد اذہان میں پختہ تر ہوا۔ ان کے ہاں بھی پاکستان کی طرح حکومت کی تبدیلی کا تجربہ کامیاب ہوا تھا۔ انقلابِ ایران کے آغاز سے پندرہ سال قبل امریکی سی آئی اے نے 19 اگست 1953 کو ایران کے مقبول ترین منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کو بالکل ویسے ہی پارلیمانی سازشوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے معزول کیا جیسے آج عمران خان کو کیا گیا ہے۔ مصدق کی معزولی کے بعد امریکہ نے وہاں اپنے پنجے گاڑنا شروع کئے اور جس طرح امریکہ نے اپنے ٹوڈی رضا شاہ کو ایرانیوں پر مسلط کیا اور عوام پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے اس کی مثال نہیں ملتی۔ شاہ کی بدنامِ زمانہ ساواک ایک ایسی ظالم خفیہ ایجنسی تھی جس نے ایران کے ہر طبقہ خیال میں جو لوگ بھی امریکہ مخالف تھے، انہیں چن چن کر اٹھایا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ساواک کے عقوبت خانے آج ایران میں عجائب گھر بنا دیئے گئے ہیں۔ ان میں تہران شہر میں دفتر خارجہ کی عمارت کے ساتھ ان کا ہیڈ کوارٹر ہوتا تھا جو شاہراہ فردوسی پر واقع تھا۔ آج یہ ایک بہت بڑا عجائب گھر ہے جس کا نام موزہ عبرت رکھا گیا ہے۔ اس میوزیم میں تشدد اور ظلم رسانی کے وہ تمام آلات محفوظ ہیں اور وہ تاریک سیل بھی ویسے ہی رکھے گئے ہیں جن میں مخالفین کو رکھا جاتا تھا۔ رضا شاہ کی فوج کو کیل کانٹے سے لیس کر کے امریکی سرپرستی میں اس پورے خطے کا تھانیدار مقرر کیا گیا تھا اور وہ یہاں دندناتا پھرتا تھا۔ ان پندرہ سالوں میں ایران کے کیمونسٹ جو تودہ پارٹی کے تحت کبھی منظم ہوا کرتے تھے، جمہوریت پسند جو سازمانِ فدائیانِ خلق کے تحت ایک مضبوط گروہ رکھتے تھے اور انقلابی کونسل جو آیت اللہ خمینی نے بنائی تھی سب کے سب یا تو زیرِ زمین چلے گئے یا ملک سے بھاگ گئے، اور جو بچ گئے وہ ساواک کے عقوبت خانوں میں قید تھے۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے خیالات کا ذکر اپنے گھر میں بھی نہیں کرتے تھے۔ جس کسی نوجوان کو عام پینٹ قمیض کی بجائے جینز پہنے ہوئے دیکھتے، کوئی بال بڑھائے ہوئے نظر آتا، اسے فورا کیمونسٹ یا سیکولر جمہوری ہونے کے شبہ میں گرفتار کر لیا جاتا۔ اسی طرح جو شخص بھی زیادہ مسجد یا امام بارگاہ جسے ایران میں حسینیان کہتے ہیں وہاں جاتا ہوا نظر آتا، اسے اٹھا لیا جاتا۔ یہ زمانہ نہ کمپیوٹر کا تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ کا، اس لئے اگر کسی کے گھر سے کوئی انقلابی لٹریچر برآمد ہوتا تو پھر اس کی رہائی ناممکن ہوتی۔ ایک پمفلٹ پر پانچ سال قید، کتاب پر دس سال اور دونوں برآمد ہونے پر عمر قید تھی۔ ساواک کی یہ تمام بدمعاشی اور غنڈہ گردی کو اس دن سے منظم کیا جانے لگا تھا، جس دن سے امریکی سی آئی اے نے مصدق کی حکومت کو اپنی “Regime Change” کی پالیسی کے تحت بدلا تھا اور پھر وہاں شاہ کی ایک سخت گیر حکومت قائم کی تھی۔ اس حکومت کی سخت گیری کی وجہ سے، پندرہ سال ایران میں لاوا پکتا رہا اور وہ ایک دن آتش فشاں بن گیایہ لاوا، 9 جنوری 1978 کو ایران کے مذہبی شہر قم میں ایک مختصر سے جلوس برآمد کی صورت ہوا جس پر سکیورٹی فورسز نے فائر کر کے پانچ لوگوں کو شہید کر دیا۔ اس خوفناک واقعے سے لوگ سہم گئے اور سناٹا سا چھا گیا۔ لیکن شہروں میں چھوٹے چھوٹے احتجاج ضرور ہوتے رہے۔ ایسے میں دو گروہ یعنی کیمونسٹ تودہ پارٹی اور سیکولر جمہوریت پسند فدائیانِ خلق کے افراد جو پسِ پردہ رہ کر کارروائیاں کرتے رہتے تھے، اب کھل کر سامنے آنے لگے۔ ڈیڑھ ماہ بعد قم میں مرنے والے لوگوں کا چہلم پورے ملک کے امام بارگاہوں اور گھروں میں منایا گیا۔ تبریز میں لوگ ایک جلوس کی صورت باہر نکلے تو اس پر فائرنگ ہوئی جس میں ایک نوجوان طالب علم مارا گیا۔ اب آہستہ آہستہ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایران کی مذہبی قیادت ہمیشہ سے کیمونسٹ تودہ پارٹی کے خلاف رہی تھی اور وہ انہیں دین کے دشمن، خدا کے منکر اور الحاد کے پیکر سمجھتی تھی، اسی طرح جمہوریت پسند فدائیانِ خلق کو دونوں گروہ انقلاب دشمن اور سرمایہ دار کے ایجنٹ سمجھتے تھے۔ لیکن ان تمام گروہوں نے یہ ادراک کر لیا تھا کہ جب تک ہم اکٹھے ہو کر اپنے مشترکہ دشمن امریکہ کو ایران سے نہیں نکالتے، اس وقت تک نہ ایران میں اسلام نافذ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کیمونزم اور آئینی جمہوریت کا تو خواب پورا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ (جاری ہے)